*قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *تیسرا پارہ☆☆
① اس پارے میں قرآن کریم کی سب سے عظیم الشان آیت ہے جس کا نام آیت الکرسی ہے۔ غور کریں اس کی عظمت و افضلیت کا راز کیا ہے ۔ اس میں اللہ کے کتنے ناموں کا ذکر ہے۔
② آیت الکرسی کے بعد تین قصے بیان کئے گئے ہیں۔ ان قصوں میں غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ ابراہیم اور نمرود کا قصہ، بستی سے گزرنے والے کا قصہ، چاروں پرندوں کے ساتھ ابراہیم علیہ السلام کا قصہ۔
③ صدقہ اور قرض حسن (اچھا قرض) دینے کی ترغیب دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ شیطان فقرو محتاجی سے ڈراتا ہے جبکہ اللہ تعالی کشادہ رزق کا وعدہ فرماتا ہے۔
④ اس پارے میں سود سے ڈرایا گیا ہے اور اسے اللہ و رسول سے جنگ کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
⑤ قرض والی آیت ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم …﴾(البقرۃ282) اس بات کی دلیل ہے کہ دین اسلام نے معاشی مسائل پر خاص توجہ دی ہے۔
⑥ سورہ آل عمران کی ابتدائی آیات میں یہ بیان ہے کہ قرآن حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب ہے اور اللہ تعالی دین اسلام کے علاوہ کسی سے کوئی اور دین ہرگز قبول نہیں کرے گا۔
⑦ ام مریم کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے نیک و صالح بننے میں والدین کی اچھی نیت کا اثر پڑتا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کی حفاظت ہوتی ہے۔
⑧ ام مریم کے قصے میں اولاد مانگنے کے متعلق بلند ہمتی کا ایک نمونہ بھی موجود ہے وہ یہ کہ انہوں نے اللہ سے بیٹا اس لئے طلب کیا تاکہ وہ بیت المقدس کا خادم بن سکے۔ تو کیا آپ کے دل میں کبھی یہ خیال آیا کہ آپ اللہ سے اولاد اس لئے طلب کریں تاکہ وہ دین اسلام کے خادم بن سکیں؟
⑨ اس پارے میں بیان ہے کہ موسی، عیسی اور محمد علیہم الصلوۃ والسلام ان تمام نبیوں کا دین ایک تھا یعنی توحید کا اقرار اور شرک کا انکار۔ لہذا جونبی یا غیر نبی کو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ صحیح معنوں میں ان کا پیروکار نہیں۔
⑩ سماج اور معاشرے پر تنقید کرنے کے تعلق سے ایک سبق اور نصیحت ہے کہ کسی ایک فرد یا چند افراد کی غلطی کو پورے سماج کی غلطی شمار کرنا غلط ہے خواہ وہ دشمن کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس آیت کریمہ پر غور کیجئے:
﴿وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ﴾ (آل عمران 75)
ترجمہ: بعض اہل کتاب تو ایسے ہیں کہ اگر انہیں تُو خزانے کا امین بنا دے تو بھی وہ تجھے واپس کر دیں اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ اگر تُو انہیں ایک دینار بھی امانت دے تو تجھے ادا نہ کریں ۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ تو اس کے سر پر ہی کھڑا رہے یہ اس لئے کہ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ ہم پر ان جاہلوں ( غیر یہودی ) کے حق کا کوئی گناہ نہیں ، یہ لوگ باوجود جاننے کے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ کہتے ہیں۔
نیز یہ آیت کریمہ:
﴿لَيْسُوا سَوَاءً مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ﴾ (آل عمران 113)
ترجمہ: یہ سارے کے سارے یکساں نہیں بلکہ ان اہل کتاب میں ایک جماعت ( حق پر ) قائم رہنے والی بھی ہے جو راتوں کے وقت بھی کلام اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدے بھی کرتے ہیں۔
⑪ ”ربانیت“ کا معنی اور مفہوم صرف اسی سورت میں بیان کیا گیا ہے اور یہ ان علمائے کرام کی خوبی ہے جو لوگوں کو علم کے باریک مسائل بتانے سے پہلے انہیں علم کی بنیادی باتیں سکھاتے ہیں اور اللہ کے بندوں كو شریعت الہی کی تعلیم دینے ميں صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔
﴿وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ﴾ (آل عمران 79)
بلکہ وہ تو کہے گا کہ تم سب رب کے ہو جاؤ، تمہارے کتاب سکھانے کے باعث اور تمہارے کتاب پڑھنے کے سبب۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•
Pingback: فہرست : قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات – Kifayatullah Sanabili