(نوٹس برائے خطبہ جمعہ ودرس)
یہ درس دو حصوں پر مشتمل ہوگا اور ہر حصہ میں پانچ نکات پر گفتگو ہوگی ۔
پہلا حصہ : خواتین کے حق وراثت کا تحفظ
① خواتین کے لئے آیات وراثت کا نزول
آیت میراث کا شان نزول خواتین ہی کو وارثت میں حق دلانا ہے:
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ، قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا، وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا، فَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ، قَالَ: «يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ» فَنَزَلَتْ: آيَةُ المِيرَاثِ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِلَى عَمِّهِمَا، فَقَالَ: «أَعْطِ ابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ، وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ»[سنن الترمذي ت شاكر، رقم 2092]
فائدہ: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی شادی سعد بن ربیع ہی کی ایک بیٹی سے ہوئی تھی ۔
نوٹ: - انڈیا میں مسلمانوں کے لئے پرسنل لا بننے کا پس منظر بھی ایک خاتوں کی طرف سے حق وراثت طلب کرنا ہے۔
سورہ نساء کی آخری آیت کا نزول بھی خواتین کے لئے ہوا ہے ، جو تفصیل طلب ہے۔
② سورۃ النساء میں قانون وراثت کا بیان
اللہ وراثت کے مسائل سورۃ النساء میں ہی بتلائے ہیں :
﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ . . .﴾ [النساء: 11]
③ مردو خواتین کے حقوق کی یکسانیت
قرآن میں مسائل کے بیان سے قبل اصولی بات کہی گئی ہے کہ مردوں کی طرح عورتوں کا بھی میراث میں حق ہے:
{لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا} [النساء: 7]
❀ ایک اعتراض کا جواب
اسلام کے نظام وراثت پر غیر مسلمین کی طرف سے ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اسلامی نظام وراثت میں عورت کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے کیونکہ عورت کا ٖحصہ مرد کے مقابل میں آدھا رکھا گیا ہے۔
عرض ہے کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے ، قرآن کی کسی بھی آیت میں یا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی حدیث میں یہ وراد نہیں ہے کہ وارثین میں اگر عورت ہے تو اس کا حصہ مرد کے مقابل میں آدھا ہی رہے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کے مطابق وارثین میں سے بعض کے حصہ بعض کے مقابل کم یازیادہ ہوتے ہیں ، لیکن اس کمی یازیادتی کی بنیاد وارثین کی جنس پر یعنی وارث کے مرد ہونے یا عورت ہونے پر نہیں ہے بلکہ جنس سے قطع نظر وارثین سے جڑی دیگر خصوصیات پیش نظر ہوتی ہے۔ مثلا رشتے کی قوت ، رشتے کا قرب، اور انفاق کی ذمہ داری ۔
چند مثالیں دیکھئے جن میں عورت کا حصہ مرد سے کم نہیں ہوتا بلکہ برابر یا اسے زائد ہی ہوتا ہے۔
➊ پہلی مثال : عورت کاحصہ مرد کے برابر
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں {والدین} اور {ایک بیٹا} اور {دوبیٹی} ہے ، ترکہ چھ(6) لاکھ ہے۔
والدین کا حصہ برابر ہوگا یعنی ایک ایک لاکھ
➋ دوسری مثال:عورت کا حصہ مرد کے مقابل دوگنا
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں {ماں} اور {ایک ماں شریک بھائی} ہے اورترکہ تین(6) لاکھ ہے ۔
ماں کا حصہ دوگنا ہوگا یعنی چار لاکھ
➌ عورت کاحصہ مرد کے مقابل تین گنا
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں {والدین} اور {ایک بیٹی} اور {ایک پوتا} ہے ۔ترکہ چھ (6) لاکھ ہے۔
بیٹی کا حصہ تین گنا ہوگا یعنی تین لاکھ
➍ ایک ہی مقام پر عورت ہو تو حصہ ملے گا مرد ہو تو حصہ نہیں ملے گا
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں اس کی {ماں} اور {ماں شریک دو بھائی} اور {ایک سگی بہن}اور{ایک باپ شریک بہن} ، ترکہ سات(7) لاکھ ہے۔
باپ شریک بہن ہو تو ایک لاکھ اسی جگہ باپ شریک بھائی ہو تو کچھ نہیں ۔
➎ عورت وارث اوراسی گروپ کا مرد وارث ہی نہیں۔
ایک آدمی یا عورت کا انتقال ہوا ، وارثین میں اس کا {بیٹا } اور {نانی} ہے ،نیز نانا بھی باحیات ہیں ۔ترکہ چھ(6) لاکھ ہے۔
نانی وارث جبکہ نانا مطلقا وراث ہی نہیں ۔
.
● قلت وکثرت سے حکم نہیں بدل سکتا
{مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ}
یہ ان لوگوں کا جواب جو کہتے ہیں کہ باپ نے صرف تھوڑی جائداد چھوڑی ہے اب اگر بہن کو دے دیں تو بھائی کہاں جائے ؟
❀ ④ وارثین کی ”فرضی“ اور ”عصبی“ گروپ بندی
خواتین سمیت کمزور پڑنے والوں کے حقوق متعین کردئے گئے اوران کا حق پہلے دینے کے لئے کہا گیا ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ»[صحيح البخاري ،رقم 6737]
❀ ⑤ عصبہ میں خواتین کے حصص، میزان ومقدم
خواتین کی عصبی حالت میں ان کے حصہ کو میزان بنایا گیا ہے ، اور انہیں کو مقدم کیا گیا ہے
{يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 11]
{وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ} [النساء: 176]
دوسراحصہ : خواتین کی محرومی کے اسباب
① خواتین کا علم وراثت سے محرومی
⟐ اپنے حقوق سے لاعلمی
مثلا یہ سمجھنا کہ شادی کے بعد میکہ میں باپ ، بھائی بہن وغیرہ کے مال میں اب کوئی حصہ نہیں ۔
⟐ موانع وراثت سے بھی لاعلمی
⋆ جہیز ، ہدایا وغیرہ موانع ارث نہیں ہیں ، کیونکہ یہ سب انفاق میں آتے ہیں جیسے بیٹوں کے اعلی تعلیم پرخرچ کرنا یا ان کا علاج ومعالجہ کرانا۔
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا نے اسماء رضی اللہ عنہا کو غلام دیا تھا ۔ لیکن اس کے سبب وراثت میں حصہ کم نہیں کیا گیا ۔
.....قَالَتْ: حَتَّى أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ بِخَادِمٍ تَكْفِينِي سِيَاسَةَ الفَرَسِ، فَكَأَنَّمَا أَعْتَقَنِي [ صحيح البخاري 5224]
زبیر رضی اللہ عنہ اپنی مطلقہ یا بیوہ بیٹیوں کے لئے خصوصی گھر بنوارکھا تھا لیکن اس کے سبب وراثت میں حصہ کم نہیں کیا گیا ۔
عَنْ عُرْوَةَ : «أَنَّ الزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ جَعَلَ دَارًا لَهُ حَبِيسًا عَلَى كُلِّ مَرْدُودَةٍ مِنْ بَنَاتِهِ»[الطبقات الكبرى 3/ 108]
⋆ بہنوں کا معاف کرنا اور حصہ چھوڑ دینا یہ بھی عذر ومانع نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے خاص اس موضوع پر مفصل لکچر:
بہن وراثت کا حصہ معاف کردے تو کیا معاف ہوجائے گا ؟ لکچر نمبر( 31)
② اپنا حق طلب نہ کرنا
عہد سلف کے واقعات ، عہد رسالت میں سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اہلیہ اور ان کی بیٹیاں
➊ عہد صدیقی
⟐ فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہما وسلم کا واقعہ
فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنا حصہ طلب کیا ، حالانکہ انہیں علم نہیں تھا کہ انبیاء کا ترکہ تقسیم نہیں ہوتا۔
”عن عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، أَنَّ فَاطِمَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - ابْنَةَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ، أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا، مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «لاَ نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ» . . .“ [ بخاري رقم 3092]
⟐ نانی کا واقعہ
نانی جو عام طور سے کمزور وضعیف ہوجاتی ہے اس نے بھی اپنا حصہ طلب کیا حالانکہ اسے اپنے حصہ کی دلیل بھی معلوم نہ تھی ۔
عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَتِ الْجَدَّةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا؟ فَقَالَ: مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْءٌ، وَمَا عَلِمْتُ لَكِ فِي سُنَّةِ نَبِيِّ اللَّهِ ﷺ شَيْئًا، فَارْجِعِي حَتَّى أَسْأَلَ النَّاسَ، فَسَأَلَ النَّاسَ، ....[سنن أبي داود، رقم 2894 والحدیث حسن]
➋ عہد فاروقی
⟐دادی کا واقعہ
.....ثُمَّ جَاءَتِ الْجَدَّةُ الْأُخْرَى إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا، فَقَالَ: «مَا لَكِ فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى شَيْءٌ، وَمَا كَانَ الْقَضَاءُ الَّذِي قُضِيَ بِهِ إِلَّا لِغَيْرِكِ، وَمَا أَنَا بِزَائِدٍ فِي الْفَرَائِضِ، وَلَكِنْ هُوَ ذَلِكَ السُّدُسُ، فَإِنِ اجْتَمَعْتُمَا فِيهِ فَهُوَ بَيْنَكُمَا، وَأَيَّتُكُمَا خَلَتْ بِهِ فَهُوَ لَهَا»[سنن أبي داود، رقم 2894 والحدیث حسن]
➌ عہد عثمانی کا واقعہ
⟐ تماضر رضی اللہ عنہا کا طلاق کے بعد حق وراثت طلب کرنا
طلاق کے سبب سسرال کی طرف سے ان کا وراثت میں حصہ نہیں دیا جارہا تھا تو یہ اس معاملہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس لے گئیں
فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: لَا أُوَرِّثُ تُمَاضِرَ شَيْئًا، فَارْتَفَعُوا إِلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضي الله عنه ، وَكَانَ ذَلِكَ فِي الْعِدَّةِ فَوَرَّثَهَا مِنْهُ، فَصَالَحُوهَا مِنْ نَصِيبِهَا رُبُعَ الثَّمَنِ عَلَى ثَمَانِينَ أَلْفًا فَمَا أَوْفَوْهَا [سنن سعيد بن منصور 2/ 66 حسن]
⟐ ایک غیر مسلم خاندان کا واقعہ
عَنْ يَزِيدَ بْنَ قَتَادَةَ : أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِهِ مَاتَ، وَهُوَ عَلَى غَيْرِ دِينِ الْإِسْلَامِ قَالَ: فَوَرِثَتْهُ أُخْتِي دُونِي، وَكَانَتْ عَلَى دِينِهِ، ثُمَّ إِنَّ أَبِي أَسْلَمَ فَشَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حُنَيْنًا فَمَاتَ فَأَحْرَزْتُ مِيرَاثَهُ، وَكَانَ تَرَكَ غُلَامًا وَنَخْلًا، ثُمَّ إِنَّ أُخْتِي أَسْلَمَتْ فَخَاصَمَتْنِي فِي الْمِيرَاثِ إِلَى عُثْمَانَ فَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَرْقَمِ: أَنَّ عُمَرَ قَضَى أَنَّهُ مَنْ أَسْلَمَ عَلَى مِيرَاثٍ قَبْلَ أَنْ يُقْسَمَ فَلَهُ نَصِيبُهُ فَقَضَى بِهِ عُثْمَانُ. فَذَهَبَتْ بِذَلِكَ الْأَوَّلِ وَشَارَكَتْنِي فِي هَذَا.»[ الأوسط لابن المنذر 7/ 473 ، المعجم الكبير: 22 /243 والاثر حسن]
➍ عہد علوی
مسئلہ دیناریہ والا واقعہ
لأن شريحاً قضى فيها للأخت بدينار واحد، وكانت التركة ستمائة دينار، فلم ترض الأخت، ومضت إلى علي رضي الله عنه تشتكي شريحاً، فوجدته راكباً، فأمسكت بركابه وقالت: إن أخي ترك ستمائة دينار، فأعطاني شريح ديناراً واحداً، فقال علي: لعل أخاك ترك: زوجة، وأما، وابنتين، واثني عشر أخاً، وأنت؟ قالت: نعم، فقال علي: ذلك حقك، ولم يظلمك شريح شيئاً [روضة الطالبين للنووي 6/ 91 ، البداية والنهاية لابن کثیر 10/ 276 ، اتفق العلماء علي نقله ولا يعرف له إسناد]
نوٹ:
اس واقعہ کی سند مفقود ہے مگر اس واقعہ کو بلاتردید اہل سنت اور اہل تشیع نےبالاتفاق ذکر کیا ہے ، اور اہل تشیع سے بہت بعید ہے کہ یہ واقعہ گھڑیں کیونکہ اس واقعہ میں تعصیب کا مسئلہ اہل تشیع کےقانون میں نہیں ہے اسی لئے اہل تشیع اپنی کتب میں یہ واقعہ ذکرکے یہ تاویل کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کا جواب سائل کے موقف کے اعتبار سے تھا اور وہ خود تعصیب کے قائل نہ تھے۔
لیکن یہ اہل تشیع کی محض خام خیالی ہے کیونکہ میراث کے مسائل میں بھی علی رضی اللہ عنہ کا موقف وہی تھا جو اہل سنت کا ہے۔
البتہ اہل تشیع نے سیاسی مقاصد کے خاطر وراثت سے تعصیب کا مسئلہ غائب کردیا۔تاکہ وراثت میں فاطمہ رضی اللہ عنہا کا حق زیادہ بتائیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو وراثت سے محروم کردیا جائے۔
③ حق ملکیت کے فوائد سے لاعلمی
⟐ رشتہ کی مضبوطی :
بھائی ، شوہر ، اولاد ، اسباط واحفاد ، پیسوں کے سبب سب کے یہاں خصوصی احترام
⟐ صدقہ وخیرات :
خواتین کو صدقہ وخیرات کی سخت ضرورت ہے اگر ان کے پاس مال ہی نہ ہوگا تو صدقہ خیرات کیسے کریں گی؟
«يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ فَإِنِّي أُرِيتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ......[صحيح البخاري 304]
④ اپنے بچوں کا نقصان
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن ابی وقاص کو اللہ کی راہ میں سارا مال دینے سے منع کردیا کیونکہ ان کی ایک بیٹی تھی جو ان کی وفات کے بعد ان کی وارث بنتی ۔
تو پھر بہنوں کے بھی بیٹے اور بیٹیاں ہوتی ہیں پھر وہ اپنا حق وراثت بھائی کو دے کو اپنی اولاد پر زیادتی کررہی ہیں۔
عن سعد بن أبي وقاص (أحد العشرة) قَالَ: عَادَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ، مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى المَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ بِي مِنَ الوَجَعِ مَا تَرَى، وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ: «لاَ» قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ؟ قَالَ: «لاَ». قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟، قَالَ: «وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا، حَتَّى اللُّقْمَةَ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ» قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَأُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي؟ قَالَ: «إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لَكِنِ البَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ» رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ [صحيح البخاري 4409]
⑤ ہبہ کا غلط طریقہ :
⟐ ہبہ بھائی ہی کو کیوں؟
ہبہ ہی کرنا ہے تو ضرورت اور تالیف قلب کا خیال کرتے ہوئے بھائی کے علاوہ دیگرمستحق افراد کو ہبہ کیا جائے جیسے۔۔۔۔۔۔۔
The remaining article is locked
Become a subscribed member to unlock the article
Your support helps us to bring more article
باقی مضمون مقفل ہے
مضمون کو غیر مقفل کرنے کے لیے سبسکرائبر ممبر بنیں
آپ کے تعاون سے مزید مضامین پیش کرنے میں مدد ملتی ہے
ممبر بنے بغیر اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے بٹن پر جاکر( بیس روپے ) ادا کریں۔
This post has restricted content. In order to access it, You must pay INR20.00 for it.
