زبیر علی زئی کی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ وغیرہ سے متعلق ہرزہ سرائی کا رد
بجواب
کفایت اللہ سنابلی کی امام ابن الجوزی سے متعلق ہزرہ سرائی کا رد
یہ تحریر ان لوگوں کا جواب ہے جنہوں نے ”کفایت اللہ سنابلی کی امام ابن الجوزی سے متعلق ہزرہ سرائی کا رد“ کے عنوان سے ندیم ظہیر صاحب کی تحریروں کو شائع کیا ہے ، ان تحریروں کا جواب اسی وقت دیا جاچکا تھا جب یہ تحریریں لکھی گئی تھیں ، لیکن چونکہ کچھ لوگوں نے ابھی حال ہی میں اسے نیٹ پر دوبارہ شائع کیا ہے اس لئے ہماری طرف سے بھی ان تحریروں کے جوابات کو شائع کردیا گیا ہے۔ لنک اس مضمون کے اخیر میں ملاحظہ فرمائیں۔
ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہنے کا الزام اور اس کی حقیقت
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
زبیرعلی زئی صاحب کے بعض حواری مواری مجھ پر یہ اتہام لگارہے ہیں کہ میں نے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ، لیکن خود اپنے گریبان میں جھانک کہ نہیں دیکھتے کہ انہیں کے اصول سے لازم آتا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ، جیساکہ آگے ہم انہیں کی آواز میں ان کے الفاظ پیش کررہے ہیں ۔
واضح رہے کہ ہم نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہیں بھی نہیں لکھا تھا البتہ ان کی بعض باتوں کو بکواس کہا تھا لیکن ایک بھائی کے کہنے پر اپنی کتاب سے یہ لفظ بھی ہم نے حذف کردیا ، اب آگے ہم ابن الجوزی رحمہ اللہ کی وہ باتیں پیش کرتے ہیں جن کو بکواس لکھا گیا تھا ، ملاحظہ ہو:
حافظ ابن الجوزی کے نزدیک یزید کفرونفاق پرگامزن
ایک جگہ نفاق اور کفریہ باتیں یزید کی طرف منسوب کر دیں اور بلاجھجک سبائیوں کی یہ باتیں نقل کر دیں کہ جنگ بدر میں اپنے کفار رشتے داروں کے خون کا بدلہ لینے کے لیے یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کروایا۔ چناں حافظ ابن الجوزی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
«جيء برأس الحسين بن علي، فوضع بين يدي يزيد بن معاوية فتمثل بهذين البيتين : ليت أشياخي ببدر شهدوا … جزع الخزرج من وقع الأسل . فأهلّوا واستهلوا فرحاً … ثم قالوا لي (بغيب) لا تُشل .قال مجاهد: نافق فيها، ثم والله ما بقي في عسكره أحد إلا (نزكه)، أي عابه ولامه» [الرد على المتعصب العنيد لابن الجوزي ص: 59]
ان الفاظ کا ترجمہ ہم اس کے مترجم نسخے سے نقل کرتے ہیں:
”جب یزیدکے پاس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کاسرلاکراس کے سامنے رکھا گیا تواس نے درج ذیل دو شعربطورتمثیل اوراستشہاد کے پڑھے:کاش کہ میرے بدروالے آباء اجداد نیزوں کی ضرب کی وجہ سے خزرج کی جزع اورچیخ وپکارکودیکھتے ،تواس موقع پروہ خوشی سے پھولے نہ سماتے اورپھرمجھے مبارک بادیتے اوریہ کہتے کہ شاباش! ناکام نہ ہوا۔حضرت مجاہد کہتے ہیں ان اشعارکی وجہ سے یزید منافق ہوگیا۔ پھرخداکی قسم اس کے حلقے اورلشکر میں جتنے بھی لوگ تھے سب نے اسے اس بات پرلعن طعن اورملامت کی۔“ [یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظر میں، ص: ١١٧]
اس کے بعدحافظ ابن الجوزی نے ان اشعار کا پس منظر بتلاہے کہ بدر میں مسلمانوں نے کفار کو قتل کیا تھا، پھر بعد میں کفار نے احد میں مسلمانوں کوقتل کیا تھا، اس پر کافرو ں کی طرف سے یہ اشعار کہے گئے تھے، جسے ردوبدل کے ساتھ یزید نے بطور استشہاد اپنے کارنامے پرپڑھا۔
حافظ ابن الجوزی آگے لکھتے ہیں:
«فاستشهد بها يزيد، وكان غيَّرَ بعضها، ويكفي استشهاده بها خزياً » [الرد علی المتعصب العنید:ص٦٠]
(ترجمہ)
”قتل حسین رضی اللہ عنہ کے موقع پریزید نے کچھ ترمیم کے ساتھ ان اشعار کوپڑھا تھا۔یزید کی بے شرمی اورڈھٹائی کے لئے اورسب باتوں سے قطع نظراتناہی کافی ہے کہ اس نے ایسے موقع پر کہے گئے اشعارکواپنے جذبا ت کی ترجمانی کے لئے استعمال کیا۔“ [یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظرمیں، ص: ١١٨]
دیکھا آپ نے!
حافظ ابن الجوزی ،یزید کی بے شرمی اورڈھٹائی کے لئے سب سے بڑی دلیل یہی دے رہے ہیں کہ یزید نے قتل حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعے بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اپنے کفار رشتے داروں کے خون کا بدلہ لیا۔ اگرہم اس بات کو بکواس کہہ دیں تو بتائیے کیا یہ جرم ہوگا؟
حافظ ابن الجوزی کے نزدیک فضیلتِ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ میں وارد سنن ترمذی والی صحیح حدیث ، موضوع اور من گھڑت ہے
حافظ ابن الجوزی نے اسی پربس نہیں کیا، بلکہ یزید کا کفر ونفاق دکھانے کے ساتھ ساتھ ساتھ ان کے والد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک جا پہنچے اور پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد ایک صحیح حدیث کو من گھڑت قرار دیا، چنانچہ لکھا:
«قال هذا الشيخ: قد قال النبي صلى الله عليه وسلم في حق معاوية: اللهم اجعله هادياً (واهد به) قال: ومن كان هادياً لا يجوز أن يُطعن عليه فيما اختار من ولاية يزيد»
”اس شیخ (عبدالمغیث) نے کہا: اﷲ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا: اﷲ اسے ہادی بنا دے اور اس کے ذریعے سے ہدایت دے اور جو شخص ہادی ہو تو اس پر اس وجہ سے طعن نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا دیا۔“ [الرد على المتعصب العنيد لابن الجوزي ص: 75]
.
اس کے بعد ابن الجوزی نے اس کی وہ سندیں پیش کی ہیں جن میں کوئی کذاب راوی ہے ، حالانکہ اسی حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اپنی سنن میں روایت کیا ہے دیکھئے : [سنن الترمذي حدیث نمبر3842]
اورامام ترمذی کی سند میں کوئی کذاب راوی نہیں بلکہ اس کے سارے رجال ثقہ ہیں اورسند متصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ، دیکھیں: [سلسلة الأحاديث الصحيحة ، قم الحدیث 1969]
غور کریں کہ امام عبدالمغیث نے ایک صحیح حدیث پیش کی، جو سنن ترمذی اور مسند احمد وغیرہ جیسی حدیث کی مشہور کتابوں میں صحیح سند سے موجود ہے، لیکن ابن الجوزی رحمہ اللہ اس کی مشہور ومعروف سند نہ پیش کرکے غیر معروف سند پیش کرکے عبدالمغیث کو مطعون کر رہے ہیں کہ انھوں نے موضوع حدیث سے استدلال کیا ہے!
حافظ ابن الجوزی کی نظر میں امیرمعاویہ سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبولیت سے محروم
اس کے بعد اس حدیث کو صحیح فرض کرنے کی صورت میں حافظ ابن الجوزی نے جو جواب دیا ہے، وہ بھی پڑھیے، لکھتے ہیں:
« ثم ليس من ضرورة الدعاء الإجابة، إذ لو وقعت في كل حال ما وقعت حرب صفين وتولية يزيد » [الرد على المتعصب العنيد لابن الجوزي ص: 77]
مترجم نسخہ سے اس کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
”لیکن اگراسے ثابت مان بھی لیاجائے یا یہ مرتبہ صحت اورثبوت کو پہنچ بھی جائے توپھربھی اس روایت میں زیادہ سے زیادہ ایک دعا کاذکرہے اورضروری تو نہیں ہے کہ ہردعا قبول بھی ہو، کیونکہ اگریہ دعا یا اس کی قبولیت ہر حال میں ہوتی توپھرصفین کا واقعہ اور یزید کی ولی عہد کا معاملہ کیوں ہوتا“ [یزید کی شخصیت علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ کی نظرمیں:ص١١٨]
دیکھا آپ نے! پہلے تو امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں وارد ایک صحیح حدیث ہی کو من گھڑت کہہ دیا، پھراسے صحیح فرض کرنے کی صورت میں اللہ کے نبی ﷺ کی دعا ہی کو قبولیت سے محروم گردانا ، نعوذباللہ من ذلک!
اب اگر نبی ﷺ کی دعاء کو قبولیت سے محروم گرداننے کو ہم نے ”بکواس“ کہہ دیا تو بتلائیے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے ؟
حافظ ابن الجوزی کے نزدیک امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ یزید کی محبت میں رشدوہدایت سے محروم
آگے اس سے بھی بڑی بات دیکھئے ، امیر معاویہ کے بارے میں یہاں تک نقل کرتے ہوئے لکھا:
«وكان معاوية يقول: لولا هواي في يزيد لأبصرتُ رشدي»
”معاویہ کہا کرتے تھے کہ اگر یزید کے بارے میں میری خواہش نہ ہوتی تو میں رشد وہدایت کو دیکھ لیتا۔“ [الرد على المتعصب العنيد لابن الجوزي ص: 46]
گویا ابن الجوزی کی نظر میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نعوذ باﷲ بیٹے کی محبت میں گرفتار ہو کر رشد و ہدایت سے محروم ہو چکے تھے۔
دراصل ابن الجوزی کی نظر میں یزید برا ہے، اس لیے موصوف نہ صرف یزید کو مطعون کر رہے ہیں، بلکہ یزید کے ساتھ ساتھ ان کے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کر رہے ہیں، ان کی فضیلت کا انکار کر رہے ہیں اور ان کی مذمت میں آنے والی جھوٹی روایت کو بھی قبول کر رہے ہیں۔
قارئین کرام !
غور فرمائیں کہ حافظ ابن الجوزی کی مذکورہ باتیں یعنی ”یزید کو منافق کہنا ، اور یہ ماننا کہ یزید نے حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے بدر میں اپنے مقتول آباء واجدادکا بدلہ لے لیا ، اور یہ کہنا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو یزید کی محبت نے رشدو ہدایت سے محروم کردیا تھا ، حتی کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے کی گئی دعا کو بھی مقبولیت سے محروم گرداننا“ ، ان سب باتوں کو اگر ہم نے”بکواس“ کہہ دیا تو کون سا بڑا جرم کردیا ؟
یاد رہے کہ ہم نے ابن الجوزی رحمہ اللہ کو”بکواسی“ قطعا نہیں کہا تھا بلکہ ان کی مذکورہ باتوں کو بکواس کہا تھا ، مزید یہ کہ بعد میں ایک فاضل بھائی کے کہنے پر ہم نے اپنی کتاب سے ”بکواس“ کا لفظ حذف بھی کردیا ، لیکن افسوس کہ اب بھی زبیر علی زئی صاحب کے پیروکار یہ اتہام لگائے جارہے کہ ہم نے حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ۔
حافظ ابن الجوزی کا امام ابوحنیفہ پر طعن وتشنیع
آج سے تقریبا تیسرہ سال قبل محدث فورم پر ایک صاحب اپنا قلمی نام ”ابن الجوزی“ لکھتے تھے شاید اس وجہ سے کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یزید کے خلاف بہت کچھ کہا ہے۔
پھر ایک دن میں نے انہیں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کچھ عبارات بتلائیں تو یہ دیکھ کو موصوف نے فورا اپنی قلمی نام ”ابن الجوزی“ فورا بدل ڈالا۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ابن الجوزی رحمہ اللہ کی عبارات یہ ہیں:
.
❀ ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597) لکھتے ہیں:
« فاتفق الكل عَلَى الطعن فِيهِ »
”ابوحنیفہ پر طعن کرنے پر تمام ائمہ دین متفق ہیں“ [المنتظم لابن الجوزي: 8/ 132]۔
.
❀ اس کے بعد حافظ ابن الجوزی نے صحیح وصریح احادیث سے ثابت شدہ کئی مسائل کا ذکر کیا اور پھر بتایا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ان تمام صحیح احادیث بلکہ اس سے بھی کئی گنا زائد صحیح احادیث کے خلاف فتوی دیا ہے چنانچہ حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں:
« فهذا من مشهور المسائل والمتروك أضعافه، ولكونه خالف مثل هَذِهِ الأحاديث الصحاح سعوا بالألسن فِي حقه، فلم يبق معتبر من الأئمة إلا تكلم فِيهِ»
”جن مسائل میں ابوحنیفہ نے صحیح احادیث کی مخالفت کی ہے ، اس کی یہ صرف چند مثالیں ہیں جنہیں میں نے ذکر کیا ہے اور جن مثالوں کو میں نے ذکر نہیں کیا ہے وہ اس کے کئی گنا زیادہ ہیں ، اور چونکہ ابوحنیفہ اس جیسی صحیح احادیث کی مخالفت کرتے تھے ، اسی لئے اہل علم نے ان کے خلاف لب کشائی کی ، چنانچہ معتبر ائمہ دین میں سے کوئی بھی نہیں بچا جس نے ابوحنیفہ پر طعن نہ کیا ہو“ [المنتظم لابن الجوزي: 8/ 143]۔
.
❀ اور امام ابوحنیفہ کی طرف سے صحیح اور صریح احادیث کی مخالفت پر بعض اہل علم نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع کرتے ہوئے جو یہ عذر پیش کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تک یہ احادیث نہیں پہنچی ۔
تو حافظ ابن الجوزی اس طرح کا عذر پیش کرکے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع کرنے والوں پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
« وقد كان بعض الناس يقيم عذره ويقول: مَا بلغه الحديث، وذلك ليس بشيء لوجهين:
أحدهما: أنه لا يجوز أن يفتي من يخفى عليه أكثر الأحاديث الصحيحة.
والثاني: أنه كَانَ إذا أخبر بالأحاديث المخالفة لقوله لم يرجع عَنْ قوله »
”بعض لوگ ان کا عذر پیش کرتے ہوئے جو یہ کہتے ہیں کہ ”ان تک یہ احادیث نہیں پہنچیں“ تو یہ بات بالکل غلط ہے اس کی دو وجوہات ہیں:
اول: یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص فتویٰ دے جبکہ اسے زیادہ تر صحیح احادیث کا علم نہ ہو۔
دوم: جب انہیں ان کے قول کے خلاف احادیث بتائی جاتیں تو وہ اپنے قول سے رجوع نہیں کرتے تھے۔“
[المنتظم لابن الجوزي 8/ 135]
زبیرعلی زئی صاحب کی نظر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ بکواسی
اب آئیے ہم آئینہ دکھا دیں کہ ان لوگوں کے اصول سے ثابت ہوتا ہے کہ زبیرعلی زئی صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ”بکواسی“ کہا ہے ۔
ملاحظہ فرمائیں زبیر علی زئی صاحب کے یہ الفاظ :
”تواب یہ کتاب (فتاوی ابن تیمیہ)ہوگئی مشکوک، توعین ممکن ہے کہ ابن تیمیہ نے یہ بات کہی ہو تو اگرکہی ہے تو بکواس ہے، غلط ہے اور اگر نہیں کہی ہے تو وہ بری ہوگئے،لیکن دوسری کتابیں جو ہیں نا اقتضاء الصراط المستقیم اس میں بھی غلط باتیں ہیں، مثلاً عبداللہ بن عمر کے بارے میں تو جو بات غلط ہے وہ غلط ہے، اگرچہ ہم اس کو ایک عالم سمجھتے ہیں اہل سنت کے ایک عالم تھے، لیکن ان کی جو غلطیاں تھیں، غلطیوں سے ہم بَری ہیں۔۔۔عبداللہ بن عمرکے بارے میں کوئی بات انہوں نے وہ بدعت والی جوکہی ہے۔۔۔“ [حوالے کے لئے دیکھیں آگے دی گئی ویڈیو]
قارئین کرام!
ملاحظہ فرمائیں یہ زبیر علی زئی صاحب کی اپنی آواز ہے۔ جس میں موصوف پہلے تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف خرافات منسوب کرکے یہ فرماتے ہیں کہ :
”عین ممکن ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بات کہی ہے“
یعنی صرف ممکن نہیں بلکہ ”عین ممکن“ ہے ! مطلب ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے ایسی باتیں بعید نہیں ! لاحول ولاقوة إلا بالله !!!
کیا شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسی شخصیت کے ساتھ حسن ظن اور ائمہ دین کے احترام کا یہی تقاضا ہے۔
پھر ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات ہونے کی صورت میں اسے ”بکواس“ کہتے ہیں ۔ صاف کہتے ہیں کہ ”اگر کہی ہے تو بکواس ہے غلط ہے“ ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی دوسری کتابوں میں ایسی خرافات منسوب کرکے اسے ابن تیمیہ سے ثابت مانتے ہیں کہتے ہیں:
”لیکن دوسری کتابیں جو ہیں نا ”اقتضاء الصراط المستقیم“ اس میں بھی غلط باتیں ہیں“
پھر مثال بھی دے کر کہتے ہیں ”مثلا عبداللہ بن عمر کے بارے میں“ تو جوبات غلط ہے غلط ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا نام سن کو سائل بھی پوچھ بیٹھا ہے کہ : عبداللہ بن عمر کے بارے میں انہوں نے کیا کہا ؟
اس کے جواب میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر صریح بہتان تراشی کرتے ہوئے زبیر علی زئی صاحب فرماتے ہیں:
”عبداللہ بن عمرکے بارے میں کوئی بات انہوں نے وہ بدعت والی جوکہی ہے“
بہرحال ان الفاظ میں زبیرعلی زئی صاحب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر جو پُر زہر تیر و نشتر چلائے ہیں، ان سے قطع نظرملاحظہ فرمائیں کہ آں جناب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات کو ”بکواس“ کہا! یعنی ندیم ظہیر صاحب کے لہجے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان کے استاذ زبیرعلی زئی صاحب کے نزدیک ”بکواسی“ تھے۔ پھر بھی اس حوالے سے ندیم ظہیر صاحب پر صم بکم کی کیفیت طاری ہے۔
کیا یہ دوغلی پالیسی اوردو رخی نہیں ہے؟
ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر جھوٹا الزام اور اس کارد
زبیرعلی زئی صاحب کے اس کلام میں ہمیں صرف یہ دکھلانا تھا کہ آں جناب نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی بات کو بکواس کہا ہے۔لیکن اسی ترنگ میں موصوف نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر ایک ایسا بدبودار الزام لگادیا ہے جسے سن کر نظرانداز کردینا کم ازکم ہمارے بس میں نہیں ہے۔وہ ہے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کو بدعت کہنے کی نسبت!
ہم یہ واضح کرنااپنا فرض سمجھتے ہیں کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کوئی غلط بات نہیں کہی، بلکہ یہ خالص رافضیوں اور بدعتیوں کی افترا پردازی اور بہتان طرازی ہے جس پر زبیرعلی زئی صاحب نے بھی آمنا وصدقنا کہہ دیا ہے۔دراصل روافض اور اہل بدعت نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ بہتان باندھاہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کواقتضاء الصراط المستقیم میں بدعتی کہا ہے۔ جبکہ یہ سراسرجھوٹ اور افترا ہے۔اس کی مفصل تردید ندیم ظہیر صاحب کی تیسری تحریر کے جواب میں ہم نے پیش کی ہے قارئین ضرور پڑھیں۔
اب ذیل میں ندیم ظہیر صاحب کی تمام تحریروں کے جوابات کے لنکس پیش خدمت ہیں ، ملاحظہ فرمائیں:
