(نوٹس برائے خطبہ جمعہ ودرس)
اہل تشیع وروافض نے یہ پروپیگنڈہ کر رکھا ہے کہ اہل سنت کے علماء اہل بیت کو صحیح طریقے سے نہیں مانتے ان کا ذکر نہیں کرتے ان کے فضائل بیان نہیں کرتے ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کون اہل بیت کو ٹھیک طرح سے مانتا ہے اور کون ان کی محبت میں مخلص ہے۔
سچائی یہ ہے کہ اہل بیت کے فضائل وحقوق کو جس قدر اہل سنت بالخصوص اہل حدیث مانتے ہیں اس طرح اہل بیت کے فضائل وحقوق کو ماننے والا پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے ۔
ہم اس حقیقت کو دس پہلؤوں سے ثابت کریں گے ملاحظہ ہو:
① تعداد اہل بیت
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہل سنت تمام اہل بیت کو مانتے ہیں جبکہ اہل تشیع نے اہل بیت میں سے صرف چند شخصیات کو اہل بیت شمار کرتے ہیں باقی شخصیات کو انہوں نے اہل بیت کی لسٹ سے ہی باہر کردیا ۔
اہل سنت کے یہاں اہل بیت کے تین گروہ ہیں:
➊ اول:
نسبی رشتے کے اعتبار سے اور یہ بنو المطلب اور بنوہاشم ہیں ۔
بنو ہاشم کا مسئلہ تو متفق علیہ اور بنو المطلب کی دلیل یہ حدیث ہے:
عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ: مَشَيْتُ أَنَا وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَعْطَيْتَ بَنِي المُطَّلِبِ وَتَرَكْتَنَا، وَنَحْنُ وَهُمْ مِنْكَ بِمَنْزِلَةٍ وَاحِدَةٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا بَنُو المُطَّلِبِ، وَبَنُو هَاشِمٍ شَيْءٌ وَاحِدٌ»
”جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ نے بنو مطلب کو تو عنایت فرمایا لیکن ہم کو چھوڑ دیا، حالانکہ ہم کو آپ سے وہی رشتہ ہے جو بنو مطلب کو آپ سے ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنو مطلب اور بنو ہاشم ایک ہی ہے“ [صحيح البخاري 3140]
نوٹ:-
عبد مناف کے چار بیٹھے تھے (1) ہاشم (2) مطلب (3) عبد شمس (4) نوفل ۔
شروع کے دو بیٹوں کی اولاد اہل بیت میں شامل ہے جبکہ آخر الذکر دونوں بیٹوں کی اولاد اہل بیت میں شامل نہیں ہے ۔ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ عبدشمس کی نسل سے ہیں اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نوفل کی نسل سے ہیں اور ان دونوں کی نسل اہل بیت میں شامل نہیں ۔
➋ دوم:
صہری رشتے کے اعتبار سے اور یہ تمام ازواج مطہرات ہیں۔
● ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر قرآن سے دلیل:
{ يَانِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (32) وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (33) وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ}
اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے (33) اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیﺚ پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے [الأحزاب: 32 - 34]
روى ابن أبي حاتم قال: «حدثنا علي بن حرب الموصلي، حدثنا زَيْدُ بنُ الحُبَابِ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ، عَنْ يَزِيْدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: {إِنَّمَا يُرِيْدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ} ، قَالَ: نَزَلَتْ فِي نِسَاءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم.وقال عكرمة: من شاء باهلته أنها نزلت في شأن نساء النبي صلى الله عليه وسلم» [تفسير ابن كثير 6/ 184 وإسناده حسن]
مذکر ضمیر کی نظیر :
⟐ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سیدہ سارہ نے بوڑھاپےمیں اولاد کی خوشخبری سن کر تعجب کیا تو فرشتوں نے کہا :
{ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَجِيدٌ }
فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں، بیشک اللہ حمد وﺛنا کا سزاوار اور بڑی شان واﻻ ہے [هود: 73]
⟐ .... فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْطَلَقَ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ فَقَالَ: «السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ البَيْتِ وَرَحْمَةُ اللَّهِ»، فَقَالَتْ: وَعَلَيْكَ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، كَيْفَ وَجَدْتَ أَهْلَكَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، [صحيح البخاري 4793]
.....كَيْفَ أَنْتُمْ يَا أَهْلَ الْبَيْتِ؟» فَيَقُولُونَ: بِخَيْرٍ يَا رَسُولَ اللهِ [صحيح مسلم 87]
.
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهذا نص في دخول أزواج النبي صلى الله عليه وسلم في أهل البيت هاهنا؛ لأنهن سبب نزول هذه الآية [تفسير ابن كثير / دار طيبة 6/ 410]
.
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وتخصيص الشيعة (أهل البيت) في الآية بعلي وفاطمة والحسن والحسين رضي الله عنهم دون نسائه صلى الله عليه وسلم من تحريفهم لآيات الله تعالى انتصارا لأهوائهم كما هو مشروح في موضعه، وحَدِيثَ الْكِسَاءِ وما في معناه غاية ما فيه توسيع دلالة الآية ودخول علي وأهله فيها كما بينه الحافظ ابن كثير وغيره [سلسلة الأحاديث الصحيحة 4/ 360]
.
عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، رَبِيبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا} [الأحزاب: 33] فِي بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ، وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ: «اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِي فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهِّرْهُمْ تَطْهِيرًا» . قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: وَأَنَا مَعَهُمْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: «أَنْتِ عَلَى مَكَانِكِ وَأَنْتِ عَلَى خَيْرٍ»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش عمر بن ابی سلمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب آیت {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}”اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والو! تم سے وہ (ہر قسم کی) گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے“ (الاحزاب: ۳۳)، ام سلمہ رضی الله عنہا کے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آپ نے فاطمہ و حسن حسین (رضی الله عنہم) کو بلایا اور انہیں ایک چادر کے نیچے ڈھانپ دیا، علی رضی الله عنہ آپ کی پیٹھ کے پیچھے تھے آپ نے انہیں بھی چادر کے نیچے کر لیا، پھر فرمایا: ”اے اللہ یہ ہیں میرے اہل بیت، میرے گھر والے، ان سے ناپاکی دور کر دے اور انہیں ہر طرح کی آلائشوں سے پوری طرح پاک و صاف کر دے“، ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: اور میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں، اے اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: ”تم اپنی جگہ ہی ٹھیک ہو، تمہیں خیر ہی کا مقام و درجہ حاصل ہے“
[سنن الترمذي 3205 وصححه الألباني]
معناه أنت خير وعلى مكانك من كونك من أهل بيتي ولا حاجة لك في الدخول تحت الكساء [تحفة الأحوذي 9/ 48]
«يا رسول الله أدخلني معهم. قال: "إِنَّكِ مِنْ أَهْلِي» [تفسير الطبري 20/ 266 وإسناده حسن]
«وهذا يُشبه ما ثبت في "صحيح مسلم": أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لمّا سئل عن المسجد الذي أُسس على التقوى من أول يوم، فقال: "هو مسجدي هذا"، فهذا من هذا القبيل؛ فإن الآية إنما نزلت في مسجد قُباء، كما ورد في الأحاديث الأخرى، ولكن إذا كان ذاك أسّسَ على التقوى من أول يوم، فمسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أَولى بِتَسمِيَته بذلك. انتهى، والله تعالى أعلم.» [البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج (38/ 703)]
.
● ازواج مطہرات کے اہل بیت ہونے پر حدیث سے دلیل:
أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَزْوَاجِهِ وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ "
ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجا کریں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں کہا کرو «اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد".» ”اے اللہ! رحمت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں پر اور ان کی اولاد پر جیسا کہ تو نے رحمت نازل فرمائی ابراہیم پر اور اپنی برکت نازل فرما محمد پر اور ان کی بیویوں اور اولاد پر جیسا کہ تو نے برکت نازل فرمائی آل ابراہیم پر۔ بیشک تو انتہائی خوبیوں والا اور عظمت والا ہے۔[صحيح البخاري3369]
.
ایک شبہہ کا ازالہ
عن زيد بن ارقم قال: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا، بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ " فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ؟ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَم
حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“ کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا: ”اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔“ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: ”دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں،“ تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔
[صحيح مسلم 2408]
اہل بیت کے حقوق یاد رکھے جائیں اور ان پر ظلم نہ ہو۔
.
اس روایت سے شبہہ پیدا کیا جاتا ہے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ہیں ۔۔
جوابا عرض ہے کہ:
اس روایت میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کا بیان موقوف ہے مرفوع روایت نہیں ہے اور ان کے بیان کی بنیاد یہ ہے کہ ازواج مطہرات کے لئے صدقہ حرام نہیں ہے۔
لیکن یہ بات درست نہیں ہے غالبا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ ازواج مطہرات کے لئے بھی صدقہ حرام ہے۔
أن خالد بن (سعيد) بعث إلى عائشة ببقرة من الصدقة (فردتها) وقالت: إنا آل محمد صلى الله عليه وسلم لا تحل لنا الصدقة» [مصنف ابن أبي شيبة (11016 ت الشثري)]
اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے آل حارث کو بھی یہاں ذکر نہیں کیا ہے ، کیونکہ ان کے لئے بھی صدقہ کے حرام ہونے کی دلیل ان کی نظر میں نہ ہوگی ۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ال حارث بھی اہل بیت میں شام ہیں کیونکہ ان کے لئے بھی صدقہ حرام ہونے کی دلیل صحیح مسلم کی اس حدیث میں موجود ہے:
أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَالْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ قَالَا: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلِلْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، ائْتِيَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ قَالَ لَنَا «إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَاتِ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ، وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ» [صحيح مسلم 1072]
➌ سوم:
ولاء کے اعتبار سے اور یہ نسبی اہل بیت کے غلام ہیں۔
عَنْ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَقَالَ لِأَبِي رَافِعٍ: اصْحَبْنِي كَيْمَا تُصِيبَ مِنْهَا، فَقَالَ: لَا، حَتَّى آتِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْأَلَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ فَقَالَ: «إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا، وَإِنَّ مَوَالِيَ القَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ»
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ کی وصولی پر بھیجا تو اس نے ابورافع سے کہا: تم میرے ساتھ چلو تاکہ تم بھی اس میں سے حصہ پاس کو، مگر انہوں نے کہا: نہیں، یہاں تک کہ میں جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں، چنانچہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر پوچھا تو آپ نے فرمایا: ”ہمارے لیے صدقہ حلال نہیں، اور قوم کے موالی بھی قوم ہی میں سے ہیں[سنن الترمذي ت شاكر 657]
نوٹ:- ازواج مطہرات کے موالی اہل بیت میں شامل نہیں ہیں ۔
نوٹ:- موالی اہل بیت کے موالی ، اہل بیت میں شامل نہیں ہینں
.
اہل تشیع دوسروے اور تیسرے گروہ کو اہل بیت میں شمار ہی نہیں کرتے ۔
بلکہ پہلے گروہ سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ دیگر بنات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے ، نیز ال حارث کو بھی اہل بیت میں شمار نہیں کردتے ۔ْ
حسنین کے علاوہ دیگر اولاد علی نیز اولاد حسن کو بھی اہل بیت میں شمار نہیں کرتے ۔
یادرہے کہ اہل سنت جھوٹے مدعیان سید کو بلا دلیل قطعا اہل بیت میں شمار نہیں کرتے ۔
② ذکر اہل بیت
اہل سنت تمام اہل بیت کو اہل بیت میں شمار کرتے ہیں اور سب کا ذکر خیر کرتے ہیں مگر اہل تشیع جن افراد کو اہل بیت میں شمار بھی کرتے ان میں سے بھی کئی افراد کا ذکر نہیں کریں گے نہ ان کے فضائل وحقوق بیان کریں گے ۔
مثلا:حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر یہ لوگ نہیں کرتے حمزہ ، عبیدہ ابن الحارث اور عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہم کا بھی ذکر یہ لوگ نہیں کرتے۔
The remaining article is locked
Become a subscribed member to unlock the article
Your support helps us to bring more article
باقی مضمون مقفل ہے
مضمون کو غیر مقفل کرنے کے لیے سبسکرائبر ممبر بنیں
آپ کے تعاون سے مزید مضامین پیش کرنے میں مدد ملتی ہے
ممبر بنے بغیر اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے بٹن پر جاکر( دس روپے ) ادا کریں۔
نوٹ:- ر قم کی ادائیگی کے بعد اگر باقی مضمون ظاہر نہ ہو تو لاگ آؤٹ ہوکر دوبارہ لاگن ہوں مکمل مضمون فورا ظاہر ہوجائے گا۔
This post has restricted content. In order to access it, You must pay INR10.00 for it.