فیس بک ، واٹس ایپ اور دیگر آن لائن ذرائع سے رابطہ کرنے والے حضرات کی خدمت میں

You are currently viewing فیس بک ، واٹس ایپ اور دیگر آن لائن ذرائع سے رابطہ کرنے والے حضرات کی خدمت میں

فیس بک ، واٹس ایپ اور دیگر آن لائن ذرائع سے رابطہ کرنے والے حضرات کی خدمت میں

ہماری پروفائل اور پیج سے جڑے اور اس کی زیارت کرنے والے نیز واٹس ایپ پر رابطہ کرنے والے حضرات کی خدمت میں عرض ہے ، اگر آپ نے ہمارے خلاف کوئی بھی تحریر پڑھی ہے یا ویڈیو سنی ہے تو ہماری پروفائل یا پیج پر پوسٹ یا کمنٹ کے ذریعے نہ تو اسے نشر کرسکتے ہیں ، اور نہ ہی اس کا لنک دے سکتے ہیں نیز واٹس ایپ پر بھی اسے ارسال نہیں کرسکتے خواہ تحریر کیسی بھی ہو اور کسی کی بھی ہو۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسی کوئی تحریر ہمارے لئے قابل استفادہ ہوسکتی ہے یا ہم اس سے متعلق کوئی وضاحت کرسکتے ہیں تو آپ ایسی چیزوں کو ہمارے میل اڈریس پر بھیج سکتے ہیں جواس ویب سائٹ پر موجود ہے۔:

اگر واقعی ایسی کوئی چیز قابل استفادہ ہوئی تو اس سے استفادہ کیا جائے گا ورنہ اسے نظر انداز کردیا جائے گا ، لیکن ہماری پروفائل یا پیج پر ایسی چیزوں کی تشہیر واشاعت کی اجازت قطعا نہیں ہے نیز واٹس ایپ پر بھی اس کے ارسال کی اجازت نہیں ہے ۔ اس کی خلاف ورزی کرنے والے حضرات بلاک کردئے جائیں گے ۔
ذیل میں دو تحریریں پیش خدمت ہیں انہیں مکمل پڑھنے کی کوشش کریں:

ایسی حرکت کبھی نہ کریں

بعض حضرات ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں کہیں دیکھا کہ کسی نے آپ کو گالی دی ، کسی نے آپ کے خلاف کوئی سوقیانہ تحریر لکھی یا گفتگو کی ، اس کا اسکرین شاٹ لیں گے، یا اس کا لنک حاصل کریں گے، اور بلا تکلف آپ کو ارسال کردیں گے ، اور اگر یہ تبرکات فیس بک پر ہوں تو، وہاں آپ کو مینشن کردیں گے ۔
اس طرح کی حرکتیں کرنے والے اکثر وہ ہوتے ہیں جو ”ظاہرا“ یا ”باطنا“ آپ سے بغض پالے ہوئے ہوتے ہیں اور اس کی آبیاری کے لئے یہ حربہ اپناتے ہیں ، امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے:
”لا تنقل إلى صديقك ما يؤلم نفسه ولا ينتفع بمعرفته فهذا فعل الأرذال“
”اپنے دوست کو وہ باتیں نہ بتاؤ جو اسے تکلیف دیں ، اورانہیں جان کر اس کو کوئی فائدہ پہنچنے والا نہ ہو ، ایسی حرکت کمینے قسم کے لوگ کرتے ہیں“ [الأخلاق والسير في مداواة النفوس لابن حزم: ص: 47]
.
بعض لوگ بغض وشر میں تو مبتلا نہیں ہوتے بلکہ دوست وخیر خواہ ہی ہوتے ہیں مگر کم عقلی اور نا تجربہ کاری کی بناپر وہ بھی یہ نادانی کر بیٹھتے ہیں ، ایسے ہی دوستوں کو دیکھ کر کسی نے کہا ہوگا:
بے وقوف دوست سے عقلند دشمن بہترہے۔

ہر ایرے غیرے کے ساتھ علمی گفتگو یا بحث ومناظرہ علم کو ذلیل کرنا ہے

❀ امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے کہا:

”من إهانة العلم أن تحدث كل من سألك“
*”یہ علم کو ذلیل کرنا ہے کہ ہر شخص كے مطالبہ پر اس کے ساتھ علمی گفتگو شروع کردو“* [الجامع لأخلاق الراوي 1/ 205 وإسناده صحيح]

❀ امام مالك رحمه الله (المتوفى:179) نے مزید کہا:

”إن من إذالة العالم أن يجيب كل من كلمه , أو يجيب كل من سأل“
*”یہ عالم کی توہین ہے کہ وہ ہر اس شخص کا جواب دے جو اس کے ساتھ بحث کرنا چاہے ، یا ہر اس شخص کو جواب دے جو اس سے کچھ بھی سوال کر بیٹھے“* [الفقيه والمتفقه 2/ 418وإسناده حسن ]

❀ امام مالک کے شاگرد امام شافعي رحمه الله (المتوفى 204)سے اسی سے ملتا جلتا قول منقول ہے:

”من إذالة العلم أن تناظر كل من ناظرك وتقاول كل من قاولك“
*”یہ علم کو ذلیل کرنا ہے کہ ہروہ شخص جو آپ سے مناظرہ کرنا چاہئے اس سے مناظرہ کرنے بیٹھ جائیں، یا ہر وہ شخص جو آپ سے بحث کرنا چاہے اس کے ساتھ بحث شروع کردیں“* [مناقب الشافعي للبيهقي 2/ 151 وفي إسناده بعض من لم أجد لهم توثيقا]

✿ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241) فرماتے ہیں:

”وليس ينبغي لأهل العلم والمعرفة بالله أن يكونوا كلما تكلم جاهل بجهله أن يجيبوه , ويحاجوه , ويناظروه , فيشركوه في مأثمه , ويخوضوا معه في بحر خطاياه“
”اہل علم اور اللہ والوں کے لئے یہ مناسب نہیں کہ جب بھی کوئی جاہل اپنی جہالت پھیلائے تو وہ اسے جواب دیں ، اس سے بحث شروع کردیں اور اس کے ساتھ مناظرہ کرنے لگ جائیں ، ایسا کرکے وہ اس جاہل کے گناہ میں شریک ہوکر اس کی غلاظت کے سمندر میں اس کے ساتھ لت پت ہوجائیں گے“ [السنة لأحمد بن محمد الخلال 1/ 228]

✿ امام شعبة بن الحجاج رحمه الله (المتوفى 160) فرماتے ہیں:

”رآني الأعمش يوما وأنا أحدث قال: «ويحك أو ويلك يا شعبة، لا تعلق الدر في أعناق الخنازير“
*”مجھے امام اعمش رحمہ اللہ نے دیکھا میں کچھ لوگوں کو حدیث سنا رہا تھا تو امام اعمش نے کہا: شعبہ یہ کیا کررہے ہو ! سور کی گردن میں موتیاں نہ پہناؤ“* [مسند ابن الجعد ص: 129وإسناده صحيح]
امام احمد رحمہ اللہ نے امام اعمش کے اس قول کی یہ تشریح کی ہے کہ: ”نا اہلوں کے ساتھ علمی گفتگو نہ مت کرو“ [الآداب الشرعية لابن مفلح 2/ 108]

✿علامہ البانی رحمه الله فرماتے ہیں:

”فما ينبغي لطلاب العلم أن يهتموا بنعيق كل ناعق؛ لأن هذا باب لا يكاد ينتهي، كلما خطر في بال أحدهم خاطرة وهو أجهل من أبي جهل فنحن نعتد به، ونرفع كلامه من أرضه، ونقيم له وزنا ومناقشة ومحاضرة وإلى آخره“
*”طلاب علم کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ ہر ایرے غیرے شخص کی چیخ وپکار پرکان دھریں ، کیونکہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا ، جاہلوں میں سے کسی کے دماغ میں جب بھی کوئی بات آئے اور وہ اسے بک دے جبکہ وہ خود ابو جہل سے بھی بڑا جاہل ہو ، اور ہم اس کی بات پردھیان دیں ، اسے نشر کریں ، اسے اہمیت دیں ، اس کا رد کریں اور اس پر بحث کریں ، یہ بالکل مناسب نہیں“* [سلسلة الهدى والنور 860]

✿ شیخ ثناء اللہ ساگر تیمی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

*”جواب انہیں باتوں کا دیجیے جن کا جواب نہ دینا فتنے کا باعث ہو جائے ورنہ اکثر خاموشی اور تجاہل عارفانہ سے کام لیجیے. کچھ بد قماش اسی ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ وہ آپ کو جادہ مستقیم سے منحرف کر سکیں اور بے فائدہ قسم کے مباحثوں میں الجھا کر آپ کو انسانیت کے مقام رفعت سے حیوانیت کی پستی میں دھکیل دیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کا کوئی کام نہیں، نٹھلے ہیں، اپنا ضمیر اور قلم بیچ کر اپنے شیطان پیٹ کی بھوک مٹاتے ہیں“* [فیس بک پوسٹ]
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)

Leave a Reply