اذان کی اجرت سے متعلق وارد حدیث کی تحقیق وتخریج

You are currently viewing اذان کی اجرت سے متعلق وارد حدیث کی تحقیق وتخریج

اذان کی اجرت سے متعلق وارد حدیث کی تحقیق وتخریج

پچھلا حصہ

دوسرا طريق: موسى بن طلحة، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261) نے کہا:
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير،حدثنا أبي، حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا موسى بن طلحة، حدثني عثمان بن أبي العاص الثقفي، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له: «أم قومك» قال: قلت: يا رسول الله، إني أجد في نفسي شيئا قال: «ادنه» فجلسني بين يديه، ثم وضع كفه في صدري بين ثديي. ثم قال: «تحول» فوضعها في ظهري بين كتفي، ثم قال: «أم قومك. فمن أم قوما فليخفف، فإن فيهم الكبير، وإن فيهم المريض، وإن فيهم الضعيف، وإن فيهم ذا الحاجة، وإذا صلى أحدكم وحده، فليصل كيف شاء»
حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ“ ۔ میں نے عرض کیا مجھے کچھ جھجک محسوس ہوتی ہے، آپﷺ نے فرمایا: ”قریب ہوجا“ ۔ آپﷺ نے مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر اپنی ہتھیلی میرے سینہ پر میرے پستانوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”پھر جا“ پھرنے کے بعد آپﷺ نے ہتھیلی میری پشت پر میرے کندھوں کے درمیان رکھی، پھر فرمایا: ”اپنی قوم کی امامت کراؤ اور جو لوگوں کا امام بنے وہ نماز میں تخفیف کرے، کیونکہ ان میں بوڑھے بھی ہوتے ہیں، ان میں بیمار بھی ہوتے ہیں،ان میں کمزور بھی ہوتے ہیں۔ اور ان میں ضرورت مند بھی ہوتے ہیں جب تم میں سے کوئی اکیلا پڑھے تو جیسے چاہے پڑھے۔“ [صحيح مسلم رقم 468 وأخرجه البيهقي في ”سننه“ (رقم 5278) من طريق محمد بن عبد الله بن نمير و أبونعيم في ”مستخرجه“ (رقم1035) من طريق أبي كريب (كلاهما محمد بن عبد الله بن نمير وأبو كريب) من طريق ابن نمير۔وأخرجه البيهقي أيضا في ”سننه“ (رقم5278) من طريق أحمد بن نصر، وأخرجه ابوعوانه في ”مستخرجه“ ( 1/ 420) من طريق حمدان بن علي، وأخرجه السراج في ”حديثه“ (رقم 337) من طريق مجاهد بن موسى ، كلهم (أحمد بن نصرو حمدان بن علي ومجاهد بن موسى) من طريق أبي نعيم۔وأخرجه أيضا أحمد في ”مسنده“ (رقم 16276 ) و ابن أبي شيبه في ”مصنفه“ (رقم 4659 ) و أبوعوانة في ”مستخرجه“ (رقم556) من طريق ابن أبي رجاء وأبونعيم في ”مستخرجه“ (رقم 1035 ) من طريق أبي كريب،كلهم (أحمدوابن ابي شيبه وأبوعوانه وأبو كريب ) من طريق وكيع۔ وأخرجه أيضا أبوعوانة في ”مستخرجه“ (رقم 1/ 420 ) من طريق محمد بن عبيد۔وأخرجه أيضا أحمد في ”مسنده“ (رقم17899) و السراج في ”حديثه“ (رقم 335) من طريق عبيد الله بن سعيد ، كلاهما (أحمدوعبيد الله بن سعيد) من طريق يحيى بن سعيد۔وأخرجه أيضا السراج في ”حديثه“ (رقم 336) من طريق عباد بن العوام۔وأخرجه أيضا أبونعيم في ”مستخرجه“ (رقم1035) من طريق محمد بن بشر ويونس بن بكير ۔ جميعهم ( ابن نميروأبو نعيم ووكيع ومحمد بن عبيدويحيى بن سعيدوعباد بن العوام و محمد بن بشر ويونس بن بكير) من طريق عمرو بن عثمان به]
صحیح مسلم کی اس روایت میں بھی اذان پر اجرت والی بات کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

تنبیہ:

اس کے ایک طریق میں اذان پر اجرت والی بات مروی ہے چنانچہ:
ابو عوانة يعقوب بن إسحاق الإسفرائني (المتوفی 316) نے کہا:
حدثنا علي بن حرب قال: ثنا يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ ، ح وحدثنا عمار قال: ثنا محمد بن عبيد، ح وحدثنا حمدان بن علي قال: ثنا أبو نعيم قالوا: ثنا عمرو بن عثمان، بإسناده مثله بمعناه. زاد علي: «واتخذ مؤذنا لا يأخذ على الآذان أجرا» ‌
علی بن حرب عن يعلى ومحمد ابنا عبيدٍ کے طریق میں یہ اضافہ ہے کہ :اور ایسا مؤذن رکھئےجو اذان پر اجرت نہ لیتا ہوں“ [مستخرج أبي عوانة رقم 1557]
عرض ہے کہ:
امام ابوعوانہ نے اذان پر اجرت والی بات کے اضافہ کو ”علی بن حرب“ کی طرف منسوب کیا ہے اور سند میں علی بن حرب کے دو استاذ ہیں ”یعلی بن عبید“ اور ”محمد بن عبید“ ۔
جہاں تک ”محمد بن عبید“ کی بات ہے تو ان کے بیان میں اضطراب ہے کیونکہ :
➊ علی بن حرب کی روایت میں انہوں نے اس اضافہ کو ذکر کیا ہے۔
➋ جبکہ عمار کی روایت میں یہ اضافہ ذکر نہیں کیا ہے دیکھئے :[مستخرج أبي عوانة رقم 1557]
➌ اور ایک دوسری روایت میں انہوں نے اس اضافہ والی بات کو مرسل سند سے ذکر کیا ہے چنانچہ:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230) نے کہا:
أخبرنا محمد بن عبيد الطنافسي قال: حدثنا عمرو بن عثمان، عن موسى بن طلحة (؟) قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان بن أبي العاص على الطائف، وقال: «صل بهم صلاة أضعفهم، ولا يأخذ مؤذنك أجرا»
موسی بن طلحہ (تابعی) روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن ابی العاص کو طائف بھیجا اور کہا: ”تم انہیں ان کے کمزور لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور تمہارا مؤذن اجرت لینے والا نہ ہو“ [الطبقات الكبرى ط دار صادر 7/ 40 وإسناده مرسل]
معلوم ہوا کہ محمد بن عبید اس روایت کے بیان میں سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کا شکار ہوا ہے۔اس لئے اس کے ان بیانات میں وہی بیان معتبر ہوگا جو اس کے استاذ کے دیگر عام شاگردوں کے موافق ہو۔
رہی بات ”یعلی بن عبید“ کی تو ان کا یہ اضافہ بھی مردود ہوگا کہ کیونکہ ان کی معتبر متابعت موجود نہیں ہے ، اور محمد بن عبید کی روایت بجائے خود غیر معتبر ہے کیونکہ وہ کسی ایک بیان پر رکے نہیں ہیں بلکہ سند ومتن دونوں اعتبار سے اضطراب کے شکار ہوئے ہیں ۔ لہٰذا ان کی روایت یعلی بن عبید کے اضافہ کی مؤید نہیں ہوسکتی ۔
علاوہ بریں ”یعلی بن عبید“ کے استاذ ”عمرو بن عثمان“ سے ان کے دیگر سات شاگردوں نے صحیح سندون سے یہی روایت بیان کی ہے مگر کسی نے بھی اذان پر اجرت والی بات روایت نہیں کی ہے ملاحظہ ہوں دیگر شاگردوں کی روایات :

➊ عبد الله بن نمير حدثنا عمرو بن عثمان ( صحيح مسلم رقم 468)
➋ أبو نعيم، ثنا عمرو بن عثمان ( السنن الكبرى للبيهقي رقم 5278 وإسناده حسن)
➌ وكيع، عن عمرو بن عثمان (مصنف ابن أبي شيبة رقم 4659 وإسناده صحيح )
➍ يحيى بن سعيد، قال: حدثنا عمرو بن عثمان (مسند أحمد رقم 17899 وإسناده صحيح)
➎ عباد ‌بن ‌العوام ثنا عمرو بن عثمان ( حديث السراج رقم 336 وإسناده حسن)
➏ محمد بن بشر عن عمرو بن عثمان ( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2/ 85 وإسناده صحيح )
➐ يونس بن بكير عن عمرو بن عثمان( المسند المستخرج على صحيح مسلم 2/ 85 وإسناده صحيح )
ان سات لوگوں کا بالاتفاق اپنے استاذ سے اس حدیث کو اذان پر اجرت والے الفاظ کے بغیر روایت کرنا بہت واضح دلیل ہے کہ اس حدیث میں اذان پر اجرت والی بات موجود ہی نہیں ، یہی وجہ ہے کہ امام مسلم نے بھی اسی طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے مگر اذان پر اجرت والی بات ذکر نہیں کی ہے۔

اگلاحصہ

Leave a Reply