دینی امور پر اجرت کا جواز ، صحابہ وتابعین واہل علم کے اقوال

You are currently viewing دینی امور پر اجرت کا جواز ، صحابہ وتابعین واہل علم کے اقوال

دینی امور پر اجرت کا جواز ، صحابہ وتابعین واہل علم کے اقوال

.

ابوقلابہ عبداللہ بن زید بصری (تابعی) رحمہ اللہ (المتوفی104) بھی جواز کے قائل ہیں چنانچہ:

امام ابن أبي شيبة رحمہ اللہ (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا إسماعيل بن علية عن خالد الحذاء قال: ”سألت ‌أبا ‌قلابة ‌عن ‌المعلم ‌يعلم ‌ويأخذ ‌أجرا ‌فلم ير به بأسا“
خالد الحذاء فرماتے ہیں کہ میں نے ابوقلابہ عبدللہ بن زید سے سوال کیا کہ : ”اس معلم کے بارے میں کیا حکم ہے جو تعلیم دے کراس پر اجر لیتا ہے ؟ تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہ سمجھا“ [مصنف ابن أبي شيبة رقم (22097) وإسناده صحيح وصححه ابن حزم في المحلي(9/ 25) وأخرجه سعيد بن منصور في سننه رقم (106) من طريق خالد به ]

امام حسن بصری(تابعی) رحمہ اللہ(المتوفی110) بھی جواز کے قائل ہیں چنانچہ:

سحنون بن سعيد التنوخي رحمہ اللہ (المتوفى240) نے کہا:
ابن وهب، عن يحيى بن أيوب، عن المثنى بن الصباح قال: «سألت الحسن البصري عن معلم الكتاب الغلمان ويشترط عليهم؟ » ، قال: «لا بأس به»
مثنی بن صباح کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری رحمہ اللہ سے پوچھا کہ : ”معلم اگر بچوں کو قرآن پڑھائے اور اس پر اجرت کی شرط رکھے تو اس کا کیا حکم ہے ؟“ تو انہوں نے جواب دیا کہ : ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے“ [المدونة 3/ 431 وإسناده صحيح ]

امام ابن سعد رحمہ اللہ (المتوفى230) نے کہا:
أخبرنا عفان بن مسلم قال: حدثنا حماد بن سلمة قال: حدثنا يحيى بن سعيد ابن أخي الحسن قال: لما حذقت قلت: يا عماه، إن المعلم يريد شيئا، قال: ما كانوا يأخذون شيئا ثم قال: أعطه خمسة دراهم، قال: فلم أزل به حتى قال: أعطه عشرة دراهم
 یحیی بن سعید کہتے ہیں کہ جب میں بڑا ہوگیا تو میں نے اپنے چچا (حسن بصری) سے کہا کہ: ”چچا ! معلم اجرت مانگ رہے ہیں“ ، تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: ”پہلے کے لوگ تو کچھ نہ لیتے تھے“ پھر کہا کہ ”ٹھیک ہے انہیں پانچ درہم دے دو“ ، کہتے ہیں کہ پھر میں نے مزید کا اصرار کیا تو انہوں نے کہا: ”دس درہم دے دد“ [الطبقات الكبرى 7/ 175 وإسناده صحيح و علقه البخاري في صحيحه 3/ 92]
.
تنبیہ
امام ابن أبي شيبة رحمہ اللہ (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا حفص، عن أشعث، عن الحسن، قال: «لا باس أن ياخذ على الكتابة أجرا، وكره الشرط»
حسن بصری فرماتے ہیں کہ : ”اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ معلم کتابت سکھانے پر اجر لے اور شرط رکھنے کو ناپسند کیا“ [مصنف ابن أبي شيبة، رقم 22104 وإسناده ضعيف]
عرض ہے کہ:
اس کی سند ضعیف ہے ، سند میں موجود ”أشعث“ یہ ”أشعث بن سوار الكندي النجار“ ہے۔
محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے مثلا:
امام أحمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفى241) نے کہا:
 «أشعث بن سوار ضعيف الحديث» ، ”اشعث بن سوار ضعیف الحدیث ہے“ [العلل ومعرفة الرجال لأحمد، ت وصي: 1/ 494]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفى852) نے کہا:
« ضعيف» ، ”یہ ضعیف ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 524 ]
.

معاویہ بن قرہ بصری(تابعی) رحمہ اللہ (المتوفی 113) بھی جواز کے قائل ہیں چنانچہ:

علی بن الجعد بغدادی (المتوفی230) نے کہا:
أنا شعبة قال: سألت معاوية عن أجر المعلم، فقال: «أرى له أجرا »
امام شعبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ بن قرہ بصری رحمہ اللہ سے معلم کی اجرت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا : ”میں اس کی اجرت کو جائز سمجھتاہوں“ [مسند ابن الجعد ، رقم1103 وإسناده صحيح ومن طریق ابن الجعد أخرجه البيهقي في سننة رقم 11679 ]
.

حکم بن عتیبہ( تابعی ) رحمہ اللہ (المتوفی113) بھی جواز کے قائل ہیں اور انہوں اپنے دور میں کسی کو بھی اسے ناجائز کہنا والا نہیں پایا۔

امام ابن أبي شيبة رحمہ اللہ(المتوفى235) نے کہا:
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا شعبة عن الحكم قال: « ما علمت أن أحدا كرهه؛ يعني أجر المعلم »
امام شعبہ نے دینی تعلیم پر اجرت کے سلسلے میں حکم بن عتیبہ تابعی رحمہ اللہ سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ”میں کسی (صحابی یا تابعی)کو نہیں جانتا جس نے معلم کے لئے اجرت لینے کو ناجائز کہا ہو“ [مصنف ابن أبي شيبة ، رقم 22106 وإسناده صحيح وأخرجه أيضا ابن الجعد في مسنده (رقم 1103 ) من طريق شعبة به ، ومن طريق علي بن الجعد أخرجه البيهقي في سننة (رقم 11679) وعلقه البخاري في صحيحة 3/ 92 ]
.

امام عطاء بن ابی رباح (تابعي)رحمہ اللہ (المتوفی 114) بھی جواز کے قائل ہیں اور انہوں بھی اپنے دور میں کسی کو بھی اسے ناجائز کہنا والا نہیں پایا۔

سحنون بن سعيد التنوخي رحمہ اللہ (المتوفى240) نے کہا:
ابن وهب عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: «أجر ‌المعلم ‌على ‌تعليم ‌الكتاب أعلمت أحدا كرهه» ؟ قال : «لا »
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے امام عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ : ”معلم اگر قرآن پڑھانے پر اجرت لے تو کیا آپ کے علم میں ہے کہ کسی نے اسے ناپسند کیا ہو ؟“ تو امام عطاء نے جواب دیا : ”نہیں“ [المدونة 3/ 430 وإسناده صحيح]
فائدہ:
حکم بن عتیبہ (المتوفی113) اور عطاء بن ابی رباح (المتوفی 114) رحمہما اللہ کے آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جن صحابہ وتابعین سے اجرت لینے پر ”کراہیت“ کا قول مروی ہے وہاں کراہت سے ”کراہت تحریمی“ نہیں بلکہ ”کراہیت تنزیہی“ مراد ہے جیساکہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے دیکھیں:[السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 6/ 16]
.

سعيد بن منصور رحمه الله (المتوفى227) نے کہا:
حدثنا خالد بن عبد الله, عن أيوب بن أبي مسكين, عن عطاء, أو خالد, عن أبي قلابة ؛ « أنهما كانا لا يريان بالأجر بأسا »
ایوب بن ابی مسکین امام عطاء اور ابوقلابہ رحمہما اللہ سے نقل کرتے کہ : ”یہ دونوں ائمہ دینی تعلیم پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں جانتے تھے“ [سنن سعيد بن منصور 2/ 354 وإسناده حسن وقال ابن حزم في المحلى ( 8/ 195) وصح عن عطاء وأبي قلابة إباحة أجر المعلم على تعليم القرآن]
.
تنبیہ
امام ابن أبي شيبة رحمہ اللہ (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا أبو سعد محمد بن ميسر، عن ابن جريج، عن عطاء: « أنه كان لا يرى بأسا أن يأخذ المعلم ما أعطي من غير شرط» .
”امام عطاء سے مروی ہے کہ وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کہ معلم وہ اجرت وصول کرلے جو بغیر کسی شرط کے دی جائے“[مصنف ابن أبي شيبة رقم 22100 وإسناده ضعيف ]
عرض ہے کہ:
اس کی سند ضعیف ہے ، ”أبو سعد محمد بن ميسر“ ضعیف ومجروح ہے۔
.
امام ابن معين رحمہ اللہ (المتوفى233) نے کہا:
«كان جهميا وليس هو بشيء كان شيطانا من الشياطين »
”یہ جہمی تھا ، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے یہ شیطانوں میں سے ایک شیطان تھا“
[تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 361]
.
امام نسائي رحمہ اللہ (المتوفى303) نے کہا:
«محمد بن ميسر أبو سعد الصاغاني متروك الحديث»
”محمد بن مسیر ابوسعد صاغانی متروک الحدیث ہے“ [الكامل لابن عدي 7/ 461 وإسناده صحيح]
.
حافظ ابن حجررحمہ اللہ (المتوفى852) نے کہا:
« ضعيف ورمي بالإرجاء» ،”یہ ضعیف ہے اور ارجاء سے متہم ہے“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 6344]
.

امام مالک رحمہ اللہ (المتوفی179) سے ابن وہب نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

« سمعت مالكا يقول لا بأس بأخذ الأجر على تعليم الغلمان الكتاب والقرآن قال: فقلت لمالك أرأيت إن اشترط مع ماله في ذلك من الأجر شيئا معلوما كل فطر وأضحى؟ فقال: لا بأس بذلك. »
”میں نے امام مالک کو فرماتے ہوئے سنا کہ بچوں کو قرآن اور کتاب سکھانے پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ، ابن ہب کہتے ہیں میں نے امام مالک سے پوچھا کہ: اگر کوئی شخص اس کی خاطر ایک طے شدہ رقم بطور سالانہ اجرت کے مقرر کرلے تو آپ کی کیا رائے ؟ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے“ [المدونة 3/ 431]

.
امام شافعي رحمہ اللہ (المتوفى204) کے حوالے امام ترمذي رحمه الله فرماتے ہیں:

« ورخص الشافعي للمعلم أن يأخذ على تعليم القرآن أجرا، ويرى له أن يشترط على ذلك، واحتج بهذا الحديث »
امام شافعی رحمہ اللہ نے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کوجائز قراردیا ہےاور اس بات کو بھی درست قراردیا ہے کہ معلم اجرت کی شرط رکھ سکتاہے ،ان باتوں کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 398]
.

امام احمد رحمہ اللہ (المتوفی241) سے نقل کرتے ہوئے صالح کہتے ہیں:

«قَالَ لَهُ إِنْسَان التَّعْلِيم ‌أحب ‌إِلَيْك ‌أَو ‌الْمَسْأَلَة ‌قَالَ ‌التَّعْلِيم أحب إِلَيّ من الْمَسْأَلَة»
”ایک شخص نے امام احمد رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ : کیا تعلیم پر اجرت لینا آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے یا لوگوں سے پیسوں کا سوال کرنا ؟ تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ : تعلیم پراجرت لے لینا میرے نزدیک لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے“ [مسائل الإمام أحمد رواية ابنه أبي الفضل صالح 2/ 9 ]
.
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«قَالَ أَحْمَد: أُجْرَةُ التَّعْلِيمِ خَيْرٌ مِنْ جَوَائِزِ السُّلْطَانِ وَجَوَائِزُ السُّلْطَانِ ‌خَيْرٌ ‌مِنْ ‌صِلَةِ ‌الْإِخْوَانِ»
”امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: تعلیم پر اجرت لے لینا یہ حکمران کے تحائف سے بہتر ہیں اور حکمران کے تحائف قبول کرلینا یہ دوستوں کی مدد لینے سے بہتر ہے“ [مجموع الفتاوى 30/ 193 ]
.

امام ابن المنذر رحمہ اللہ(المتوفى319) بھی جواز کے قائل ہیں ۔

آپ نے تین اقوال نقل کئے پہلا قول جو اجرت لینے کی اجازت دیتے ہیں ، دوسرا قول جو بلاشرط کے اجرت لینے کو جائز کہتے ہیں اور تیسرا قول جواجرت سے منع کرتے ہیں ، یہ تینوں اقوال نقل کرنے کے بعد امام ابن المنذررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
« القول الأول أصح، لأن النبي- صلى الله عليه وسلم لما أجاز أن يأخذ الرجل على تعليم القرآن عوضاً في باب النكاح، ويقوم ذلك مقام المهر: جاز أن يأخذ المعلم على تعليم القرآن الأجر، والنعمان يجيز أن يستأجر الرجل الرجل على أن يكتب له نوْحاً، أو شعراً، أو غناء معلوماً، بأجر معلوم، فيجيز الإجارة على ما هو معصية، ويبطلها فيما هو طاعة لله، ومما قد دلت السنة على إجازته. »
”پہلا قول صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح میں قرآن کی تعلیم پر عوض کو جائزقراردیا ہے اور یہ مہر کے قائم مقام ہے تو اس بناپر یہ بھی جائز ہوگا کہ معلم قرآن کی تعلیم پر اجرت بھی لے ، اور نعمان (امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ) پر تعجب ہے کہ آپ اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ کوئی آدمی ایسے شخص کو طے شدہ اجرت پر رکھ سکتا ہے جو اس لئے نوحہ یا شعر یا گانا لکھے ، یعنی جو گناہ کا کام ہے اس کام پر اجرت لینے کو وہ جائز کہتے ہیں اورجو نیکی کے کام ہیں اس پر اجرت کو باطل قرار دیتے ہیں جبکہ حدیث سے بھی اس پر اجرت لینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔“ [الإشراف لابن المنذر 6/ 294 ]
.

ابوسلیمان حمد بن محمد خطابی رحمہ اللہ (المتوفی388) فرماتے ہیں:

« في هذا بيان جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن »
اس حدیث (حدیث رقیہ) میں قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز ملتا ہے“ [معالم السنن 3/ 101]
.

امام ابوبکر ابن العربی المالکی رحمہ اللہ (المتوفى 543 )فرماتے ہیں:

”والصحيح جواز أخذ الأجرة على الآذان والصلاة والقضاء وجميع الاعمال الدينية فإن الخليفة يأخذ أجرته على هذا كله“
”صحیح بات یہ ہے کہ اذان ، نماز ، قضاء اور تمام دینی کاموں پر اجرت لینا جائز ہے کیونکہ خلیفہ ان تمام چیزوں پر اجرت لیتا ہے“ [عارضة الأحوذي لابن العربي، ط العلمية: 2/ 13]
.

امام ابن حزم رحمہ اللہ (المتوفى456) فرماتے ہیں:

«والإجارة جائزة على تعليم القرآن، وعلى تعليم العلم مشاهرة وجملة، وكل ذلك جائز – وعلى الرقي، وعلى نسخ المصاحف، ونسخ كتب العلم؛ لأنه لم يأت في النهي عن ذلك نص، بل قد جاءت الإباحة»
”قرآن کی تعلیم پر اجرت لینا جائز ہے اسی طرح علم سکھانے پر بھی اجرت لینا جائز ہے یہ اجرت تنخواہ کی شکل میں لی جائے یا ایک ساتھ لی جائے ہر صورت جائز ہے ، نیز رقییہ ، مصحف کی کتابت ، علمی کتابوں کی نقل پر بھی اجرت لینا جائز ہے کیونکہ ان معاملات نہیں ممانعت پر کوئی نص موجود نہیں ہے بلکہ جواز پر دلائل موجود ہیں۔“ [المحلى لابن حزم، ط بيروت: 7/ 18]

.
امام ابو محمد البغوي رحمہ اللہ (المتوفى516) فرماتے ہیں:

«في الحديث دليل على جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن، وجواز شرطه، وإليه ذهب عطاء، والحكم، وبه قال مالك، والشافعي، وأبو ثور»
”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کی تعلیم پر اجرت لے سکتے ہیں اور اجرت کی شرط بھی لگاسکتے ہیں، امام عطاء ، امام حکم بن عتیبہ کا یہی موقف ہے نیز امام مالک ،امام شافعی اورامام ابوثور رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔“[ شرح السنة للبغوي 8/ 268]
.

امام نووي رحمہ اللہ (المتوفى676) فرماتے ہیں:

« وكما يرزق الامام القاضي من بيت المال يرزق أيضا من يرجع مصلحة عمله إلى عامة المسلمين كالامير والمفتي والمحتسب»
”اور خلیفہ جس طرح قاضی کو بیت المال سے تنخواہ دے گا ایسے ہی ان لوگوں کو بھی تنخواہ دےگا جو مسلم عوام کے لئے خدمات انجام دیتے ہیں جیسے امیر ، مفتی اور حساب وکتاب کرنے والا“[روضة الطالبين 8/ 122]
.

Leave a Reply