عثمان بن أبي العاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے جس میں انہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی آخری ملاقات اور اس موقعہ سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیتوں کو ذکرکیا ہے۔ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث کئی طرق سے مروی ہے اور اکثر طرق میں اذان کی اجرت کا ذکر نہیں ہے اور یہی صحیح ہے یعنی اس روایت میں اذان کی اجرت سے متعلق کوئی بات ثابت نہیں ہے۔
.
تاہم بالفرض اگر ان الفاظ کو صحیح وثابت تسلیم کرلیا جائے تو اس سے اذان پر اجرت کی حرمت نہیں بلکہ جواز ثابت ہوتا ہے
چنانچہ امام جورقاني رحمه الله (المتوفى543) فرماتے ہیں:
« فإن صحت هذه اللفظة، كان فيه دليل على إباحة الأجرة، لأن في قوله: ”اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا“ دليل أن هناك من يأخذ الأجرة، وإنما ذكره (كذا ولعل الصواب كره) ذلك، ولو كان ذلك على الزجر لقال لا تؤخذ على الأذان أو لا يجوز »
”اگر یہ الفاظ ثابت بھی ہوجائیں تو اس میں اجرت کے جواز کی بات ثابت ہوتی ہے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ: ”ایسا مؤذن تلاش کرو جو اپنی اذان پر اجرت نہ لے“ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت اجرت لینے والے بھی تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پسند نہیں فرمایا، اگر یہ حرام قرار دینے کے لئے ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہتے کہ: اذان پر اجرت نہ لی جائے یا اذان پر اجرت لینا ناجائز ہے“ [الأباطيل والمناكير للجورقاني: 2/ 171 ما بين القوسين من الناقل]
لیکن حقیقت ہے کہ اذان پر اجرت والے الفاظ کے ساتھ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ،اب آگے ہم اس حدیث کے تمام طرق کو دیکھتے ہیں۔
پہلا طریق : حسن بصری عن عثمان بن أبي العاص
امام ترمذي رحمہ الله (المتوفى279) نے کہا:
حدثنا هناد قال:حدثنا أبو زبيد وهو عبثر بن القاسم،عن أشعث، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، قال: إن من آخر ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم: أن «اتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا»
عثمان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ سب سے آخری وصیت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مجھے یہ کی کہ ”مؤذن ایسا رکھنا جو اذان کی اجرت نہ لے“ ۔[سنن الترمذي رقم (209) وإسناده ضعيف ومن طريق الترمذي أخرجه ابن الجوزي في التحقيق (1/ 315) وأخرجه ابن أبي شيبة ( 2/ 491) ومن طريق ابن أبي شيبه أخرجه ابن ماجه رقم (714 ) من طريق حفص بن غياث ، وأخرجه أيضا الحميدي في مسنده رقم (930) و الطبراني في معجمه الكبير رقم 8378 وأبونعيم في حلية الأولياء (8/ 134 ) من طرق عن فضيل بن عياض كلاهما (حفص بن غياث وفضيل بن عياض) عن أشعث به]
.
یہ روایت درج ذیل علتوں کی بناپر ضعیف ومردود ہے۔
① پہلی علت:
حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں کئی محدثین نے صراحت کی ہے کہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع ثابت نہیں ہے ، چنانچہ
.
امام حاكم رحمہ اللہ الله (المتوفى405) نے کہا:
« فإن الحسن لم يسمع من عثمان بن أبي العاص »
”حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص سے نہیں سنا ہے“ ، [المستدرك للحاكم، ط الهند: 1/ 176]
.
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے کہا:
«روى عن… عثمان بن أبي العاص ومعقل بن سنان ولم يسمع منهم»
”حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص اور معقل بن سنان سے روایت کیا ہے اور ان سے نہیں سنا ہے“ [تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 2/ 264]
تنبيه:
بعض روایات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ حسن بصری نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے ان سے ملیں ہیں تو اس کا مطلب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی ملاقات اور رویت میں حدیث کا سماع نہیں کیا ہے جیسا کہ ابن معین رحمہ اللہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے چناچنہ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
« ويقال إنه رأى عثمان بن أبي العاص » ، ”اور کہاجاتا ہے کہ انہوں نے عثمان بن ابی العاص کو دیکھا ہے“ [تاريخ ابن معين، رواية الدوري: 4/ 260]
② دوسری علت:
حسن بصری سے اس روایت کو نقل کرنے والا ”اشعث بن سوار“ ہے اور یہ سخت ضعیف ہے جیساکہ تفصیل آرہی ہے۔
دکتور بشار اور ان کی ٹیم نے اسی سبب اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھا:
«إِسناده ضعيفٌ؛ أَشعث بن سَوَّار الكِندي ليس بثق»
”اس کی سند ضعیف ہے ، اشعث بن سوار کندی ثقہ نہیں ہے“ [المسند المصنف المعلل (20/ 97)]
③ تیسری علت:
اشعث بن سوار کے علاوہ حسن بصری کے دوسرے شاگردوں نے جب اسی حدیث کو روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر نہیں بلکہ دوسری بات کا تذکرہ کیا ملاحظہ ہو دیگر شاگردوں کی روایات :
ہشام بن حسان کی روایت
امام ابن ماجة رحمه الله (المتوفى273) نے کہا:
حدثنا إسماعيل بن أبي كريمة الحراني قال: حدثنا محمد بن سلمة،عن محمد بن عبد الله بن علاثة، عن هشام بن حسان، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إني لأسمع بكاء الصبي، فأتجوز في الصلاة» .
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز ہلکی کر دیتا ہوں“ ۔[سنن ابن ماجه رقم 990 وإسناده صحيح إلي هشام]
حميد بن أبي حميد کی روایت
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا أحمد بن علي بن سويد يعني ابن منجوف، حدثنا أبو داود، عن حماد بن سلمة، عن حميد، عن الحسن، عن عثمان بن أبي العاص، أن وفد ثقيف لما قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنزلهم المسجد ليكون أرق لقلوبهم، فاشترطوا عليه أن لا يحشروا، ولا يعشروا، ولا يجبوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لكم أن لا تحشروا، ولا تعشروا، ولا خير في دين ليس فيه ركوع»
عثمان بن ابوالعاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب ثقیف کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے اہل وفد کو مسجد میں ٹھہرایا تاکہ ان کے دل نرم ہوں، انہوں نے شرط رکھی کہ وہ مقابلہ کے لیے نہ اکٹھے کئے جائیں نہ ان سے عشر (زکاۃ) لی جائے اور نہ ان سے نماز پڑھوائی جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر تمہارے لیے اتنی گنجائش ہو سکتی ہے کہ تم مقابلہ کے لیے نہ بلائے جاؤ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم سے زکاۃ نہ لی جائے (کیونکہ بالفعل سال بھر نہیں گزرا) لیکن اس دین میں اچھائی نہیں جس میں رکوع (نماز) نہ ہو“ ۔ [ سنن أبي داود 3026 وإسناده صحيح إلي حميد وأخرجه أيضا أحمد في مسنده رقم (17913) من طريق عفان عن حمادبه ]
”عبيدة بن حسان“ کی بھی ایک روایت ”حسن بصری“ سے اجرت اذان کے ذکر کے بغیر مروی ہے مگر عبید تک سند صحیح نہیں ہے دیکھیں: [المعجم الكبير للطبراني 9/ 57]
خلاصہ یہ کہ اجرت اذان کے ذکر کے ساتھ یہ طریق ضعیف ومردود ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)