بے برکتی کی ایک وجہ ”خیرات“ پر پلنے کی عادت ڈالنا ہے

You are currently viewing بے برکتی کی ایک وجہ ”خیرات“ پر پلنے کی عادت ڈالنا ہے

بے برکتی کی ایک وجہ ”خیرات“ پر پلنے کی عادت ڈالنا ہے

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی کو صرف ایک بار سمجھایا کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ٹھیک نہیں ہے اس سے مال میں بے برکتی ہوتی ہے اور آدمی کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا مزید یہ کہ لینے والا ہاتھ دینے والے ہاتھ کی بنسبت نیچاہی رہتا ہے۔
یہ سن کو صحابی رسول نے قسم کھالی کہ اب میں آئندہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا پھر صحابی آخری سانس تک اس قَسم پر باقی رہے حتی کہ خلفائے راشدین کی طرف سے تقسیم ہونے والے عطیات تک لینے سے انکار کرجاتے بالآخر اس دنیا سے چلے گئے مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا بلکہ کبھی کوئی سرکاری عطیہ تک قبول نہ کیا ۔
ملاحظہ ہو صحیح بخاری کی یہ حدیث :
● عن حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأعطاني، ثم سألته، فأعطاني، ثم سألته، فأعطاني ثم قال: «يا حكيم، إن هذا المال خضرة حلوة، فمن أخذه بسخاوة نفس بورك له فيه، ومن أخذه بإشراف نفس لم يبارك له فيه، كالذي يأكل ولا يشبع، اليد العليا خير من اليد السفلى»، قال حكيم: فقلت: يا رسول الله، والذي بعثك بالحق لا أرزأ أحدا بعدك شيئا حتى أفارق الدنيا، فكان أبو بكر رضي الله عنه، يدعو حكيما إلى العطاء، فيأبى أن يقبله منه، ثم إن عمر رضي الله عنه دعاه ليعطيه فأبى أن يقبل منه شيئا، فقال عمر: إني أشهدكم يا معشر المسلمين على حكيم، أني أعرض عليه حقه من هذا الفيء فيأبى أن يأخذه، فلم يرزأ حكيم أحدا من الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توفي
[صحيح البخاري 1472]
ترجمہ:
● حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر عطا فرمایا۔ میں نے پھر مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی عطا فرمایا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے حکیم! یہ دولت بڑی سرسبز اور بہت ہی شیریں ہے۔ لیکن جو شخص اسے اپنے دل کو سخی رکھ کر لے تو اس کی دولت میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو لالچ کے ساتھ لیتا ہے تو اس کی دولت میں کچھ بھی برکت نہیں ہو گی۔ اس کا حال اس شخص جیسا ہو گا جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا (یاد رکھو) اوپر کا ہاتھ (دینے والا) نیچے کے ہاتھ (لینے والے )سے بہتر ہے۔ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ کہ میں نے عرض کی اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ اب اس کے بعد میں کسی سے کوئی چیز نہیں لوں گا۔ تاآنکہ اس دنیا ہی سے میں جدا ہو جاؤں۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حکیم رضی اللہ عنہ کو ان کا معمول دینے کو بلاتے تو وہ لینے سے انکار کر دیتے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بھی انہیں ان کا حصہ دینا چاہا تو انہوں نے اس کے لینے سے انکار کر دیا۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مسلمانو! میں تمہیں حکیم بن حزام کے معاملہ میں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کا حق انہیں دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ غرض حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسی طرح کسی سے بھی کوئی چیز لینے سے ہمیشہ انکار ہی کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وفات پا گئے۔ (عمر رضی اللہ عنہ ”مال فے“ یعنی ملکی آمدنی سے ان کا حصہ ان کو دینا چاہتے تھے مگر انہوں نے وہ بھی نہیں لی)۔
[صحيح البخاري 1472]
(کفایت اللہ سنابلی)

Leave a Reply