عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کا اثر
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا ابن علية، عن الجريري، عن عبد الله بن شقيق، قال: «يكره أرش المعلم، فإن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا يكرهونه ويرونه شديدا »
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : ”معلم کی اجرت ناپسندیدہ ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اسے ناپسند کرتے تھے اور اسے سخت جاتنے تھے“ [مصنف ابن أبي شيبة، رقم 22111 وإسناده صحيح وأخرجه سعيد بن منصور في سننه (رقم104) ومن طريقه البيهقي في سننه (رقم 11395) من طريق خالد بن عبد الله ، و أخرجه عبدالرزاق (رقم14534) وأخرجه أيضا ابن أبي داود في المصاحف (ص375) من طريق أبي نعيم كلاهما (عبدالرزاق وأبونعيم ) من طريق الثوري ، وأخرجه أيضا ابن أبي داود في المصاحف (ص375) من طريق يزيد و أيضا (ص375)من طريق أبي خالد ، كلهم (خالد بن عبد الله والثوري ويزيد وأبوخالد) عن الجريري به وزادوا جميعا ”بيع المصاحف“ وزاد أبوخالد «إلا أن يجيء بالشيء من عنده » ]
.
یہ اثر پیش کرکے دعوی کیا جاتا ہےکہ صحابہ تعلیم پر اجرت کو جائز نہیں سمجھتے تھے ۔
عرض ہے کہ:
یہ اثر عدم جواز پر صریح نہیں ہے بلکہ اثر میں مذکور صحابہ کے موقف میں ”کراہیت“ سے کیا مراد ہے ؟ کیا یہاں ”کراہیت تحریمی“ مراد ہے یا ”کراہیت تنزیہی“ مراد ہے اس کی صراحت اس روایت میں نہیں ہے ۔
اس لئے اس معاملہ سے متعلق تمام آثار کو سامنے رکھ کو غور کرنا ہوگا تاکہ اس کا حقیقی مفہوم ہمارے سامنے واضح ہو ۔ چنانچہ جب ہم دیگر آثار دیکھتے ہوئے سب سے پہلے اسی روایت کے دوسرے طرق اور ان کے الفاظ کو اکٹھا کرتے ہیں تو یہ معلوم پڑتا ہے کہ اس اثر کے دوسرے طرق میں ”مصحف“ کو بیچنے سے متعلق بھی صحابہ کا یہی موقف مذکور ہے چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
عن الثوري، عن سعيد الجريري، عن عبد الله بن شقيق العقيلي قال: «كان أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم يشددون في بيع المصاحف ويكرهون الأرش على الغلمان في التعليم»
عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ : ” ”اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مصحف بیچنے سے متعلق سخت موقف رکھتے تھے اور بچوں کی تعلیم پر اجرت لینے کو ناپسند کرتے تھے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي رقم 14534 وإسناده صحيح وأخرجه ابن ابي داؤد في المصاحف (ص375) من طريق أبي نعيم عن الثوري به]
حالانکہ مصحف کا معاملہ سمجھنا آسان ہے کہ اس کی تیاری میں آدمی کا محض وقت ہی نہیں لگتا بلکہ سازو سامان اور اس کی محنت بھی صرف ہوتی ہے ، ظاہر ہے کہ ایسا کام اور ایسی محنت جس کا فائدہ متعدی ہو اس کا محنتانہ لینا انسان کا فطری حق اور اسلام کے مجموعی اصولوں کے عین موافق ہے۔ اس لئے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ یہاں ”کراہیت“ سے مراد ”کراہت تحریمی“ نہیں بلکہ ”کراہت تنزیہی“ ہے۔
.
اس کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ مشہور تابعی حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ:
: « ما علمت أن أحدا كرهه؛ يعني أجر المعلم »
”میں کسی (صحابی یا تابعی)کو نہیں جانتا جس نے معلم کے لئے اجرت لینے کو ناجائز کہا ہو“ [مصنف ابن أبي شيبة ، رقم 22106 وإسناده صحيح وأخرجه أيضا ابن الجعد في مسنده (رقم 1103 ) من طريق شعبة به ، ومن طريق علي بن الجعد أخرجه البيهقي في سننة (رقم 11679) وعلقه البخاري في صحيحة 3/ 92 ]
نیز ایک دوسرے تابعی امام عطاء بن ابی رباح (تابعي)رحمہ اللہ (المتوفی 114)نے بھی اپنے دور میں کسی کو بھی اسے ناجائز کہنا والا نہیں پایا۔
سحنون بن سعيد التنوخي رحمہ اللہ (المتوفى240) نے کہا:
ابن وهب عن ابن جريج قال: قلت لعطاء: «أجر المعلم على تعليم الكتاب أعلمت أحدا كرهه» ؟ قال : «لا »
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے امام عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا کہ : ”معلم اگر قرآن پڑھانے پر اجرت لے تو کیا آپ کے علم میں ہے کہ کسی نے اسے ناپسند کیا ہو ؟“ تو امام عطاء نے جواب دیا : ”نہیں“ [المدونة 3/ 430 وإسناده صحيح]
اب غور کریں کہ اوپر کی روایت میں تابعی عبد الله بن شقيق رحمہ اللہ (المتوفي108) جس ”کراہت“ کو صحابہ کی طرف منسوب کررہے ہیں ، ان ہی کے ہم طبقہ دوسرے تابعی حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ (المتوفی113) اور امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ (المتوفی 114) عمومی تعبیر استعمال کرکے اسی دور کے تمام اہل علم سے اس ”کراہت“ کی نفی کررہے ہیں جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بدرجہ اولی شامل ہیں ۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہاں کوئی تضاد بیانی نہیں بلکہ دونوں بیانات میں موجود ”کراہت“ سے مراد الگ الگ بات ہے۔
حکم بن عتیبہ اور عطاء بن ابی رباح رحمہما اللہ اس دور کے اہل علم یعنی صحابہ وتابعین سے جس کراہت کی نفی کی ہے وہ ”کراہت تحریمی“ ہے۔
اورعبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف جس کراہت کو منسوب کیا ہے وہ ”کراہت تنزیہی“ ہے ۔
یعنی اسے ناپسند کیا گیا مگرحرام نہیں قراردیا گیا ۔
.
یہی وجہ ہے قاضی عیاض نے حرام ہونے کا قول صرف اور صرف احناف کی طرف منسوب کیا ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
«وقد نقل عياض جواز الاستئجار لتعليم القرآن عن العلماء كافة إلا الحنفية»
”قاضی عیاض نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کی بات تمام علماء سے نقل کی ہے سوائے احناف کے“ ۔[فتح الباري لابن حجر 9/ 213 ]
.
نیز امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفى458) عبداللہ بن شقیق رحمہ اللہ کا مذکورہ اثر پیش کرنے کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی کراہیت کا قول نقل کرتے ہیں اس کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
« وهذه الكراهية على وجه التنزيه تعظيما للمصحف »
”یہ کراہیت تنزیہی ہے مصحف کی تعظیم کے لئے“ [السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 6/ 16]
معلوم ہوا کہ اس بات کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مصحف بیچنے کو یا تعلیم پر اجرت لینے کو حرام وناجائز قرار دیا ہے بلکہ وہ عظیمت کی بات کرتے تھے کہ بہتر یہی ہے کہ ایسے کاموں پراجرت نہ لی جائے ۔
اور اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا بلکہ دینی تعلیم ہی پر کیا موقوف ہم تو کہتے ہیں دنیاوی تعلیم بھی مفت دی جائے تو یہ بھی بہت اچھی بات ہے بالخصوص میڈیکل تعلیم کی تو اشد ضرورت ہے کیونکہ دینی تعلیم سے اگر ہمیں روحانی علاج ملتا ہے تو طبی تعلیم سے جسمانی علاج ملتا ہے اور یہ دونوں علم ہی انسانی زندگی کے لئے بہت اہم ہیں ۔
بلکہ ایک شیعہ دکتور نے ڈاکٹروطبیب کے بارے میں بھی لکھ دیا کہ وہ بھی لوگوں کا علاج ومعالجہ کرکے اجرت نہیں لے سکتا بلکہ اسے بھی یہ کام مفت میں کرنا چاہے چنانچہ شیعہ دکتور لکھتاہے:
● ”ان مما ينبغي الالتفات اليه ان شريعتنا المقدسة جعلت من عمل الطبيب مثل عمل الفقيه ، فإذا كان الفقيه يبين للناس ما أحله الله لهم وما حرمه عليهم بما يتضمنه من معالجة روحية وأخلاقية ، فإن الطبيب يبين لهم ما ينفعهم وما يضرهم لعلاج ابدانهم اذا ما داهمها المرض ، فكلا المهمتين مقدستان وواجبتان ، و من ثم لا يجوز أخذ الأجرة عليهما ، بل يقدم لهم مالا من بيت المال ما يتكفل بمؤنتهم۔“
ترجمہ:
● ”ہمارے لئے یہ بات جاننا بہت ضروی ہے کہ ہماری مقدس شریعت نے ڈاکٹر(طبیب) کے کام کو فقیہ (عالم) کے کام کی طرح قراردیا ہے ، تو جس طرح فقیہ (عالم) لوگوں کے لئے ان چیزوں کو بیان کرتا ہے جنہیں اللہ نے حلال یا حرام قرار دیا ہے اور حلال وحرام کے یہ مسائل انسان کے لئے روحانی اور اخلاقی علاج ہیں ، ٹھیک اسی طرح ڈاکٹر(طبیب) لوگوں کے لئے ان چیزوں کو بیان کرتا ہے جو بیماری سے جسمانی علاج کے لئے لوگوں کے لئے مفید یا مضر ہیں ۔
تو یہ دونوں پیشہ مقدس اور واجب پیشہ ہے لہٰذا ان دونوں میں سے کسی پر بھی اجرت لینا جائز نہیں ہے ، بلکہ ان دونوں (عالم اور ڈاکٹر ) کو بیت المال سے اتنا دیاجائے گا جتنے سے ان کا گزر بسر ہوسکے۔“
[أخذ الاجرة علي الواجبات -دراسة مقارنة ،مجلة كلية الفقه العدد 29 ص448]
.
ہماری نظر میں دکتور مذکور کی دونوں باتیں غلط ہیں۔
دکتور نے اپنے اس قول کی بنیاد فقہی قاعدہ (لایجوز اخذ الاجرۃ علی الواجبات ) پر رکھی ہے یہ قاعدہ اہل سنت اور اہل تشیع دونوں کی فقہی کتب میں مذکور ہے ، لیکن دونوں جگہ تفصیلات ہیں۔
بہر حال صحیح بات یہ ہےکہ عالم یا ڈاکٹر دونوں اپنے علم کو پیشہ بناسکتے ہیں اور اپنے اس پیشہ پر اجرت بھی لے سکتے ہیں اور یہ جواز بصورت مجبوری نہیں ہے جیساکہ دکتور مذکور اور دیگر لوگوں کا خیال ہے بلکہ اصلا ہی ان دونوں امور میں اجرت لینا جائز ہے ۔
البتہ اگر کوئی عالم یا کوئی ڈاکٹر مفت میں اپنی خدمات پیش کرے تو بلاشبہ یہ اچھی بات ہے اور الحمد للہ علماء اور اطباء دونوں پیشہ ور ہونے کے باوجود بھی حسب توفیق مفت میں بھی اپنی خدمات پیش کرتے رہتے ہیں ۔