تین طلاق کے ایک ہونے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی

You are currently viewing تین طلاق کے ایک ہونے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی

تین طلاق کے ایک ہونے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی

تین طلاق کے ایک ہونے پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی

تین طلاق سے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا دو فتوی ہے ایک یہ کہ تین طلاق تین شمار ہوگی ، یہ فتوی ان کا اصل اور شرعی فتوی نہیں تھا بلکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کی رعایت میں تھا ، اور ان کا دوسرا فتوی یہ تھا کہ تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی یہی ان کا اصل اورشرعی فتوی تھا ۔
اور عہدفاروقی کے ابتدائی دو سال سے قبل تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کا صرف ایک فتوی تھا کہ تین طلاق ایک شمار ہوگی ، لیکن عہدفاروقی میں دوسال کے بعد جب عمرفاروق رضی اللہ نہ نے یہ فرمان جاری کردیا کہ جو تین طلاق دے گا تو تعزیرا اس کی تین طلاق نافذ کردی جائے ، تو اس کے بعد ابن عباس رضی اللہ عنہ اکثر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے تعزیری فرمان کے تحت یہی فتوی دیتے تھے کہ تین طلاق تین شمار کی جائے گی ، لیکن بسا اوقات خاص حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بھی فتوی دیتے تھے کہ تین طلاق تین شمار ہوگی ۔
اب اس سلسلے کی دس روایت ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کے ایک ہونے کا بھی فتوی دیتے تھے:

✿ پہلی روایت:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا إسحاق بن إبراهيم، ومحمد بن رافع، واللفظ لابن رافع، قال إسحاق: أخبرنا، وقال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبي بكر، وسنتين من خلافة عمر، طلاق الثلاث واحدة، فقال عمر بن الخطاب: إن الناس قد استعجلوا في أمر قد كانت لهم فيه أناة، فلو أمضيناه عليهم، فأمضاه عليهم“
”سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ طلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں بھی دو برس تک ایسا امر تھا کہ جب کوئی ایک بارگی تین طلاق دیتا تھا تو وہ ایک ہی شمار کی جاتی تھی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے جلدی کرنا شروع کی اس میں جس میں ان کو مہلت ملی تھی سو ہم اس کو اگر جاری کر دیں تو مناسب ہے، پھر انہوں نے جاری کر دیا (یعنی حکم دے دیا کہ جو ایک بارگی تین طلاق دے تو تینوں واقع ہو گئیں“ [صحيح مسلم 3/ 1099 رقم 1472]

صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں بیک وقت دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی اسی بات پراجماع رہا ہے۔
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف بھی یہی تھا کہ ایک وقت دی گی تین طلاق ایک ہی شمار ہوگی ۔

امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751)فرماتے ہیں:
”وكل صحابي من لدن خلافة الصديق إلى ثلاث سنين من خلافة عمر كان على أن الثلاث واحدة“
”ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے لیکر عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سال تک ہرصحابی کا یہی موقف تھا کہ تین طلاق ایک شمارہوگی“ [إعلام الموقعين عن رب العالمين 3/ 38]

✿ دوسری روایت:

امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) نے کہا:
”قد روى يوسف بن يعقوب القاضي، عن سليمان بن حرب، عن حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، أنه قال: شهدت ابن عباس جمع بين رجل وامرأته طلقها ثلاثا، أتي برجل قال لامرأته: أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق فجعلها واحدة، وأتي برجل قال: لامرأته أنت طالق، أنت طالق، أنت طالق، ففرق بينهما“
”عکرمہ کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھا ، انہوں نے ایک آدمی اور اس کی بیوی کو ملا دیا اس آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی تھی ، چنانچہ ایک ایسا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس طلاق کو ایک قراردیا ۔ اور ایک دوسرا شخص ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا جس نے اپنی بیوی کو کہاتھا : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کروادی“ [معرفة السنن والآثار 11/ 40 وإسناده صحيح يوسف بن يعقوب صاحب كتاب]

امام بیہقی رحمہ اللہ نے یوسف بن یعقوب القاضی سے نقل کیاہے اور یہ صاحب کتاب و صاحب السنن ہیں جیساکہ امام ذہبی نے کہا ہے [تاريخ الإسلام ت بشار 6/ 1069]
اس لئے ظاہر ہے کہ امام بیہقی نے کتاب سے نقل کیا ہے، اورسند صحیح ہے۔

اس روایت میں غور کیجئے کہ ایک ہی طرح دی گئی تین طلاق کے دو واقعہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دو طرح کا فتوی دیا ہے ایک وقوع کا اور دوسرا عدم وقوع کا ۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ تین طلاق کے بارے میں دو طرح کی فتوی دیتے تھے ۔

ایک اعتراض اور اس کا جواب

بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بعد امام احمد رحمہ اللہ سے اس کی یہ تشریح نقل کی ہے کہ یہ غیرمدخولہ سے متعلق ہے ۔

جوابا عرض ہے کہ :

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس حدیث سے متعلق امام احمد رحمہ اللہ کی تشریح قطعا نقل نہیں کی ہے اور نہ ہی اسے صرف غیر مدخولہ سے متعلق بتایا ہے بلکہ انہیں نے دراصل امام احمد رحمہ اللہ کے ایک عام فتوی کی روشنی میں اس روایت کا دو جواب دیا ہے ایک یہ کہ یہ غیر مدخولہ سے متعلق ہے اور دوسرا یہ کہ اگر مدخولہ سے متعلق ہے تو تکرار طلاق مراد ہے۔
سب سے پہلے امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ملاحظہ ہو:
امام احمد رحمہ اللہ کے بیٹے عبداللہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
”سمعت ابي سئل وانا اسمع عن رجل قال لامرأته انت طالق انت طالق انت طالق ،قال ان كانت غير مدخول بها فإنها واحدة لانها بانت بالأولى وان كانت مدخولا بها فأراد ان يفهمها ويعلمها ويريد الأولى فأرجو ان تكون واحدة وإلا فثلاث“
”میرے والد سے سوال کیا گیا اور میں سن رہا تھا کہ اگر کوئی شخص اگر اپنی بیوی سے کہے : تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تجھ کو طلاق ہے ، تو اس کا کیاحکم ہے ؟ امام احمد رحمہ اللہ نے جواب دیا: اگر اس کی بیوی غیر مدخولہ ہوگی تو یہ ایک طلاق ہوگی کیونکہ وہ پہلی ہی سے الگ ہوجائے گی ، اور اگر اس کی بیوی مدخولہ ہوگی تو طلاق دینے والے کا ارادہ سمجھانے اور بتانے کا ہو اور اس کی مراد ایک ہی طلاق ہو (تو بھی ایک طلاق ہوگی) ورنہ تین طلاق مانی جائے گی“[مسائل أحمد، رواية عبد الله، ت زهير: ص: 360]

امام احمد رحمہ اللہ کے اس فتوی میں غور کیجئے کہ انہوں نے فتوی ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ روایت کی تشریح میں نہیں دیا ہے بلکہ ان سے ایک عام سوال کیا گیا تو اس کے جواب میں بیوی کے مدخولہ اور غیرمدخولہ کے اعتبار سے دونوں صورتوں میں جواب دیا ، اسی طرح طلاق دینے والے کی الگ الگ نیت کے اعتبار سے بھی جواب دیا ، نیز بعض اعتبار سے اسے تین طلاق شمارکیا ۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے امام احمد رحمہ اللہ کے اسی عام فتوی کو سامنے رکھتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مذکورہ روایت سے متعلق یہ احتمال ذکر کیاہے کہ ممکن ہے یہ واقعہ غیر مدخولہ سے متعلق ہو تو ایسی صورت میں ایک ہی طلاق ہوگی جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ہے ، یا ممکن ہے کہ مدخولہ ہی سے متعلق ہو لیکن طلاق دینے والے نے ایک ہی مراد لیا ہو اور تکرار اور سمجھانے کے لئے تین بار کہہ دیا ہو تو اس صورت میں بھی ایک ہی طلاق ہوگی جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ کا فتوی ہے ۔
چنانچہ امام بیہقی کے الفاظ یہ ہیں:
”قال أحمد: وهذا إنما يختلف باختلاف حال المرأة، بأن تكون التي جعلها فيها واحدة غير مدخول بها فبانت بالأولى فلم يلحقها ما بعدها، والتي جعلها فيها ثلاثا مدخولا بها فلحقها الثلاث، وقد يختلف باختلاف نية الرجل في المدخول بها بأن يكون في إحدى الحالين أراد تبيين الأولى، وفي الأخرى أراد إحداث طلاق بعد الأولى“
”امام احمد کہتے ہیں کہ : یہ معاملہ عورت کی مختلف حالت کے اعتبار سے مختلف ہوگا ، اس طرح کہ جس فتوی میں ایک طلاق قرار دیا اس میں عورت غیرمدخولہ ہوگی تو پہلی طلاق سے جدا ہوجائے گی اور بعد کی طلاقیں اس پر نہیں پڑیں گی ، اورجس فتوی میں تین طلاق قرار دیا اور میں عورت مدخولہ ہوگی تو اسے تینوں طلاق پڑ جائے گی ، نیز مدخولہ عورت کے بارے میں آدمی کی مختلف نیت کے اعتبار سے بھی مسئلہ مختلف ہوتا ہے ، اس طرح کی اگر پہلی حالت میں وضاحت اورسمجھانا مراد لیا ہو اور دوسری حالت میں ایک بعد دوبارہ دوسری طلاق دینا مقصود ہو“ [معرفة السنن والآثار للبيهقي: 11/ 41]

امام احمد رحمہ اللہ کا مذکورہ فتوی ان کے بیٹے کی زبانی پڑھنے کے بعد امام بیہقی رحمہ اللہ کے الفاظ دیکھنے سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے زیر نظر ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کی تشریح میں یہ بات قطعا نہیں کہی ہے اور نہ ہی امام بیہقی رحمہ اللہ کا یہ دعوی ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کی یہ تشرح کی ہے ، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کے ایک عام فتوی کی روشنی میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت کا جواب پیش کیا جس میں دو باتیں ہیں:

اول:

تین طلاق کو تین ماننے والا فتوی غیر مدخولہ سے متعلق ہے۔

دوم:

تین طلاق کو تین ماننے والا فتوی اگر مدخولہ سے متعلق ہی ہے تو طلاق دینے والے کا ارادہ ایک ہی طلاق کا تھا لیکن اس نے سمجھانے کے لئے تین بار طلاق کو دہرایا ۔

اب ان دونوں باتوں کے جواب میں عرض ہے کہ:

اولا:

ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اس روایت میں دو الگ الگ حقیقی واقعہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فتوی ذکر ہے جس میں طلاق دینے والے سے متعلق امام احمد کی مذکورہ دونوں باتوں میں سے کسی بھی بات کی صراحت موجود نہیں ہے ۔ اس لئے بغیر کسی دلیل کے ان دونوں حقیقی واقعات کو ان باتوں پر محمول کرنا بے بنیاد ہے۔
نیز امام احمد رحمہ اللہ نے ”وإلا فثلاث“ (ورنہ تینوں طلاق ہوجائے گی) کہہ کر ایک تیسری حالت یہ بھی تو بتائی ہے کہ اگر بیوی مدخولہ ہو اور تکرار مقصود نہ ہو تو یہ تینوں طلاق واقع ہوجائے گی ! پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت کے دونوں واقعات میں یہ تیسری حالت بھی تو ہوسکتی ہے جس میں امام احمد رحمہ اللہ کے مطابق تو تینوں طلاق ہوجائے گی ، اور ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی ایک واقعہ میں یہی فتوی دیا ہے ۔ جبکہ دوسرے واقعہ میں ایک ہی طلاق قرار دیا ، کیونکہ اس حالت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ دونوں طرح کا فتوی دیتے تھے ۔
اور غالب حالت یہی ہوتی ہے کہ آدمی اپنی مدخولہ بیوی ہی کو طلاق دیتا ہے کیونکہ طلاق زیادہ تر آپسی اختلافات کی بناپر ہی دی جاتی ہے ،اور اختلافات کی نوبت تبھی آتی ہے جب بیوی کی رخصتی ہوگئی ہو اور وہ مدخولہ ہو۔نیز اختلاف کے بعد آدمی غصہ کا شکار ہوکر ایک سے زائد طلاق دیتا ہے ، اس لئے وہ سمجھانے کی کیفیت میں نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر طلاق سے وہ طلاق ہی مراد لیتا ہے۔
لہٰذا جب طلاق کی غالب حالت مدخولہ اور غصہ کی ہوتی ہے تو مجمل روایات کو اسی غالب حالت پر ہی محمول کیا جائے گا ، اس کے برعکس غیر مدخولہ اور سمجھانے والی حالت مراد لینے کے لئے روایت میں اس کی صراحت ہونا ضروری ہے۔اوراس روایت میں ایسی کوئی صراحت قطعا نہیں ہے ۔لہٰذا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ دونوں فتوی مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق سے متعلق ہے ۔

ثانیا:

اگر مجمل تین طلاق والی روایات کو غیر مدخولہ پر محمول کیا جائے تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ پھر مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے ، کیونکہ تین طلاق کے تین ہونے سے متعلق صحابہ کرام کے آثار میں سے صرف درج ذیل صحابہ کے آثار ہی ثابت ہیں ۔
ان میں سےشروع کے صحابہ کے فتاوی صرف غیر مدخولہ سے متعلق ہیں اور باقی تین کے فتاوی دو قسم کے ہیں ، پہلی قسم میں غیرمدخولہ کی صراحت ہے اور دوسری قسم میں مجمل بات ہے ، صرف انہیں تین صحابہ کے بارے میں ان کے مجمل فتاوی کے پیش نظر یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ انہوں نے مدخولہ عورت کی تین طلاق کو بھی تین طلاق شمار کیا ہے ، لیکن فریق مخالف جب مجمل فتاوی کے بارے میں یہ تشریح کرتا ہے کہ اس سے غیر مدخولہ عورت مراد ہے تو پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا یہ ان تین صحابہ کے مجمل فتاوی بھی غیر مدخولہ سے متعلق ہی ہیں ، بالخصوص جبکہ ان تین صحابہ ہی کے دیگر فتاوی میں غیرمدخولہ کی صراحت ہے۔
ایسی صورت میں مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے سے متعلق کسی بھی صحابی کافتوی ثابت ہی نہیں ہوتا ہے، لہٰذا فریق مخالف کو یہ اعلان کردینا چاہئے کہ مدخولہ عورت کو دی گئی تین طلاق کے تین ہونے کا فتوی کسی بھی صحابی سے ثابت نہیں ہے۔

ثالثا:

طلاق سے متعلق صحابہ کرام کے تمام فتاوی کی روایات دیکھنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روایات میں یہ تو صراحت ہوتی ہے کہ عورت غیر مدخولہ تھی ، لیکن کسی ایک روایت میں بھی یہ صراحت نہیں کی جاتی ہے کہ عورت مدخولہ تھی ۔ جس کا مطلب یہ نکلا کہ ان فتاوی میں جب مطلق تین طلاق کا ذکر ہوگا تو مدخولہ عورت ہی مراد ہے اور جب بھی غیر مدخولہ عورت مراد ہوگی تو لازما اس کی صراحت روایت میں ہوگی ۔
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی زیرنظرروایت میں غیر مدخولہ کی صراحت نہیں ہے ، اس لئے طے ہوجاتا ہے کہ یہاں مدخولہ عورت ہی مراد ہے۔

✿ تیسری روایت:

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275) نے کہا:
”وروى حماد بن زيد، عن أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس، إذا قال: «أنت طالق ثلاثا بفم واحد فهي واحدة»“
”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کوئی( اپنی بیوی) کو کہے : تجھ کو تین طلاق ایک ہی جملے میں تو یہ ایک طلاق ہوگی“ [سنن أبي داود 2/ 260]
نوٹ:- ”بفم واحد“ (ایک ہی جملے میں) سے مراد یہ ہے کہ اس طرح کہے : ”انت طالق ثلاثا“ (تجھ کو تین طلاق)اس روایت کو امام ابوداؤد نے اپنے شیخ الشیخ ”حماد بن زید“ سے نقل کیا ہے ، اور اپنے اور ایوب کے بیچ واسطے کو ذکر نہیں کیا ہے ۔
لیکن امام بیہقی کی ماقبل میں معرفۃ السنن والی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ”حماد بن زید“ سے اس روایت کو بیان کرنے والے ”سليمان بن حرب“ ہیں ، کیونکہ......

The remaining article is locked
Become a subscribed member to unlock the article
Your support helps us to bring more article
باقی مضمون مقفل ہے
مضمون کو غیر مقفل کرنے کے لیے سبسکرائبر ممبر بنیں

آپ کے تعاون سے مزید مضامین پیش کرنے میں مدد ملتی ہے

ممبر بنے بغیر اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے بٹن پر جاکر(سو روپے ) ادا کریں۔
نوٹ:- ر قم کی ادائیگی کے بعد اگر باقی مضمون ظاہر نہ ہو تو لاگ آؤٹ ہوکر دوبارہ لاگن ہوں مکمل مضمون فورا ظاہر ہوجائے گا۔

This post has restricted content. In order to access it, You must pay INR100.00 for it.

 

Leave a Reply