🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *گیارہواں پارہ* ☆☆
1- اس پارے میں بھی منافقوں کے متعلق گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ منافقوں کے بعد بادیہ نشینوں میں سے اچھے اور برے لوگوں کا ذکر ہے۔ اس کے بعد مہاجرین اور انصار کا تذکرہ ہے۔ گویا اس وقت مدینہ کا معاشرہ لوگوں کے جن طبقات پر قائم تھا یہاں ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ شناخت بتائی گئی ہے۔
2- ﴿وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلۡأَوَّلُونَ مِنَ ٱلۡمُهَٰجِرِينَ وَٱلۡأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحۡسَٰنٖ رَّضِيَ ٱللَّهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُواْ عَنۡهُ وَأَعَدَّ لَهُمۡ جَنَّٰتٖ تَجۡرِي تَحۡتَهَا ٱلۡأَنۡهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدٗاۚ ذَٰلِكَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ١٠٠﴾ (التوبہ 100) ترجمہ : اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے۔)
اس آیت کریمہ کے اندر لفظ ”السابقون“پر کیا آپ نے غور کیا؟ اس لفظ کو سورہ واقعہ کی ان آیات کے ساتھ ملا کر دیکھئے: ﴿وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلسَّٰبِقُونَ١٠ أُوْلَٰٓئِكَ ٱلۡمُقَرَّبُونَ١١ فِي جَنَّٰتِ ٱلنَّعِيمِ١٢ ثُلَّةٞ مِّنَ ٱلۡأَوَّلِينَ١٣ وَقَلِيلٞ مِّنَ ٱلۡأٓخِرِينَ١٤﴾ ترجمہ: اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں ۔ وہ بالکل نزدیکی حاصل کئے ہوئے ہیں۔ نعمتوں والی جنتوں میں ہیں۔ ( بہت بڑا ) گروہ تو اگلے لوگوں میں سے ہوگا ۔ اور تھوڑے سے پچھلے لوگوں میں سے۔
پھر آپ بھی ان تھوڑے لوگوں میں شامل ہونے کی کوشش کیجئے۔
3- اس پارے میں ”مسجد ضِرار“ اور اسے برے مقصد سے تعمیر کئے جانے کا ذکر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے نبی کو اس مسجد میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا۔ پھر اس مسجد کا ذکر ہے جو اس لائق ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔ یہاں اس بات پر تنبیہ کی گئی ہے کہ عمل کا اصل دارومدار ظاہری شکل و صورت پر نہیں بلکہ صحیح مقصد اور نیک نیتی پر ہوتا ہے۔
4- اس پارے میں ان لوگوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جنہوں نے اللہ سے اپنی جانوں کا سودا کر لیا۔ نيز نبی اور اہل ایمان کو مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
5- جب دل معصیت اور نافرمانی کی آگ سے جلتا ہے تو قرآن پڑھنے والا ان تین صحابہ کرام کے قصے کو یاد کرتا ہے جو جنگ سے پیچھے رہ گئے تھے۔ تو کیا یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اس قصے میں غور و فکر کئے بغیر آگے گزر جائیں۔
6- سوره توبہ کی آخری آیات میں قرآن کے ساتھ تعلق اور لگاؤ کے حوالے سے لوگوں کی مختلف قسمیں بیان کی گئی ہیں۔ اس تقسیم پر غور و فکر کرنا ضروری ہے تاکہ آپ خسارہ اٹھانے والے گروہ میں شامل نہ ہوں۔
7- سورہ یونس کے آغاز میں اللہ تعالیٰ نے کائنات میں پھیلی ہوئی اپنی کچھ نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ اللہ کے وجود اور اس کی عظمت و کبریائی کو ثابت کرنے کے لیے مثالیں بیان کی گئی ہیں۔
8- مشرکین سے حجت بازی اور قرآن کے ذریعہ انہیں چیلنج دینے کا ذکر ہے۔
9- بندے کے لئے سب سے بلند وبالا مقام یہ ہے کہ اللہ کا ولی بن جائے۔ تاہم یہ ولا یت کیسے حاصل ہو گی؟ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿أَلَآ إِنَّ أَوۡلِيَآءَ ٱللَّهِ لَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُونَ٦٢ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَكَانُواْ يَتَّقُونَ٦٣ لَهُمُ ٱلۡبُشۡرَىٰ فِي ٱلۡحَيَوٰةِ ٱلدُّنۡيَا وَفِي ٱلۡأٓخِرَةِۚ ﴾ (سورة يونس62-64) ترجمہ: یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لئے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے)
لہذا جو شخص ولایت کا دعوی کرے اور وہ آیت میں مذکور ان اوصاف سے عاری ہو تو اس کی ولایت جھوٹی ہے۔
10- اس پارے میں نوح علیہ السلام پھر موسی اور فرعون کے قصے کا سرسری تذکرہ ہے۔ فرعون کے غرق آب ہونے کے لمحے کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ تاکہ بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو اور معلوم ہو جائے کہ موت کو اپنی نگاہوں سے دیکھنے کے بعدایمان لانا انسان کے لئے سود مند نہیں ہوتا۔
11- اس پارے کے آخر میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ایمان پر ثابت قدم رہنے، وحی کی پیروی کرنے اور صبر کرنے کا حکم دیا ہے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

Pingback: فہرست : قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات – Kifayatullah Sanabili