☆☆ *تیرہواں پارہ* ☆☆

You are currently viewing ☆☆ *تیرہواں پارہ* ☆☆

☆☆ *تیرہواں پارہ* ☆☆

🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *تیرہواں پارہ* ☆☆
1- اس پارے میں بھی یوسف علیہ السلام کے قصے کا تسلسل، ان کے پاس ان کے بھائیوں کی آمد کا ذکر، اور یوسف علیہ السلام کا ان سے اپنے سوتیلے بھائی کو بھی لانے کا مطالبہ ہے۔ یہ سب کچھ عظیم حکمتوں کے تحت پیش آیا جیسے یعقوب علیہ السلام کو مزید آزمائش میں مبتلا کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کے نزدیک ان کے مقام و مرتبے کو بلند کرنا تھا۔
2- یعقوب علیہ السلام کی اپنے بیٹوں کو وصیت کہ کثرت تعداد کے سبب وہ سب ایک ہی دروازے سے نہ داخل ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ نظر بد کے اسباب و ذرائع سے دور رہنا شرعا معیوب نہیں ہے بشرطیکہ اس میں غلو اور مبالغہ نہ ہو۔
3- یوسف علیہ السلام کے پاس ان کے بھائیوں کی آمد اور بادشاہ کا پیمانہ گم ہو جانے کا ذکر ہے۔ اور کس طرح سے یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائی کو لینے کے لئے ایک شرعی تدبیر اپنائی۔
4- یعقوب علیہ السلام کے صبر و تحمل اور اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھنے کے بارے میں موثر گفتگو کا ذکر ہے۔ یعقوب علیہ السلام کے گردوپیش ہر چیز بدل گئی مگر اللہ کے ساتھ ان کے حسن ظن میں ذرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔ اسی لیے وہ اس آزمائش سے سرخرو ہوکر نکلے۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یعقوب علیہ السلام پر جب بھی کوئی آزمائش آئی تو انھوں نے اللہ کے ساتھ حسن ظن رکھ کر اس کا تعاقب کیا۔
5- ﴿وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (یوسف86) ترجمہ: مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے۔
اس آیت کریمہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ سے حسن ظن رکھتے ہوئے مقدر میں لکھی ہوئی تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنے میں اللہ اور اس کے اسماء و صفات کی معرفت کی کیا تاثیر ہوتی ہے۔
6- جن عبادات نے یوسف علیہ السلام کو اس مقام و مرتبہ تک پہنچایا ان کو اختصار کے ساتھ دو لفظوں میں بیان کر دیا ہے: صبر اور تقوی۔ تو آپ بھی اپنے اندر یہ دونوں صفت پیدا کریں تاکہ بڑی کامیابی سے سرفراز ہو سکیں ﴿إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ﴾(يوسف 90) ترجمہ: بات یہ ہے کہ جو بھی پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ تعالی کسی نیکوکار کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اس آیت کریمہ سے اس بات کا بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں یعنی صبر و تقوی حاسد کے حسد کا مقابلہ کرنے کے لئےسب سے كارگر ہتھیار ہیں۔
7- بڑی آزمائش میں مبتلا ہوئے۔ صبر کیا۔ اقتدار سے نوازے گئے۔ ان سب کے بعد بھی یوسف علیہ السلام اللہ کا شکر بجا لانا، نعمت کا اعتراف کرنا، والدین کو نعمت کا احساس دلانا اور اسلام پر خاتمہ کی دعا کرنا نہیں بھولے۔
8- کہاں یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ تعامل اور رویہ اور کہاں اپنے بھائیوں سے قطع تعلق کرنے والے لوگ؟ اور یہی یوسفی رویہ ہمارے نبی ﷺ نے فتح مکہ کے دن اپنے ہی قبیلے اور خاندان کے دشمنوں کے ساتھ اپنایا۔
9- سورہ یوسف کی آخری آیات میں کائنات میں پھیلی ہوئی اللہ کی نشانیوں اور رسولوں کے بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ قرآن کے قصوں سے عبرت اور نصیحت حاصل کرنے کی طرف رہنمائی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ قصے اور کہانیاں یوں ہی نہیں بیان کئے گئے ہیں۔
10- سورہ رعد کی ابتدائی مسلسل تین آیات کے اندر کائنات اور اللہ کی عظمت پر دلالت کرنے والی کائنات کی نشانیوں کا ذکر ہے جسے پڑھ کر دل اللہ کی عظمت و جلال سے سرشارهو جاتا ہے۔ اس کے بعد صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تذکیر و یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ پھر اس کے بعد دوبارہ آفاق و انفس میں پھیلی اللہ کی عظیم نشانیوں کا تذکرہ ہے۔
11- ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا﴾ (الرعد31)ترجمہ: اگر (بالفرض) کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے)، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
قرآن کے ساتھ جینے اور اس پر غور و تدبر کرنے والے دلوں پر قرآن کی کیا تاثیر ہوتی ہے اس کے متعلق یہاں کیا ہی حیرت انگیز مثال دی گئی ہے۔
12- ارشاد باری تعالیٰ: ﴿أَفَمَن يَعۡلَمُ أَنَّمَآ أُنزِلَ إِلَيۡكَ مِن رَّبِّكَ ٱلۡحَقُّ كَمَنۡ هُوَ أَعۡمَىٰٓۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُواْ ٱلۡأَلۡبَٰبِ١٩ ٱلَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهۡدِ ٱللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ ٱلۡمِيثَٰقَ٢٠ وَٱلَّذِينَ يَصِلُونَ مَآ أَمَرَ ٱللَّهُ بِهِۦٓ أَن يُوصَلَ وَيَخۡشَوۡنَ رَبَّهُمۡ وَيَخَافُونَ سُوٓءَ ٱلۡحِسَابِ٢١ وَٱلَّذِينَ صَبَرُواْ ٱبۡتِغَآءَ وَجۡهِ رَبِّهِمۡ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنفَقُواْ مِمَّا رَزَقۡنَٰهُمۡ سِرّٗا وَعَلَانِيَةٗ وَيَدۡرَءُونَ بِٱلۡحَسَنَةِ ٱلسَّيِّئَةَ أُوْلَٰٓئِكَ لَهُمۡ عُقۡبَى ٱلدَّارِ٢٢ جَنَّٰتُ عَدۡنٖ يَدۡخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنۡ ءَابَآئِهِمۡ وَأَزۡوَٰجِهِمۡ وَذُرِّيَّٰتِهِمۡۖ وَٱلۡمَلَٰٓئِكَةُ يَدۡخُلُونَ عَلَيۡهِم مِّن كُلِّ بَابٖ٢٣﴾(الرعد19-23) ترجمہ: کیا وه ایک شخص جو یہ علم رکھتا ہو کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وه حق ہے، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ جو اللہ کے عہد (وپیمان) کو پورا کرتے ہیں اور قول وقرار کو توڑتے نہیں۔اور اللہ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے وه اسے جوڑتے ہیں اور وه اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی سختی کا اندیشہ رکھتے ہیں۔ اور وه اپنے رب کی رضا مندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں ، اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں، ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے۔ ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اوﻻدوں میں سے بھی جو نیکو کار ہوں گے، ان کے پاس فرشتے ہر ہر دروازے سے آئیں گے۔
ان آیات میں اللہ تعالی نے دس اوصاف(1) بیان کئے ہیں۔ جس نے اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کر لیے اس کا ٹھکانہ نعمتوں والی جنت ہے۔
13- سورہ ابراہیم کے آغاز میں موسی علیہ السلام کا قصہ اور رسولوں کے اپنی قوم کی طرف بھیجے جانے کا ذکر ہے۔ اور کس طرح سے انہوں نے اللہ پر بھروسہ کیا۔ اذیتوں اور تکلیفوں پر صبر و تحمل سے کام لیا ۔بالآخر وہی کامیاب و کامراں ہوئے۔
14- قیامت کے خوفناک مناظر میں سے ایک منظر کا بیان ہے۔ اور کس طرح شیطان بروز قیامت اپنے متبعین سے براءت کا اظہار کرے گا۔ لہذا شیطان کے فریب اور دھوکے میں آنے سے بچیں۔ اس لیے کہ آج اگر آپ نے اس کی بات مان لی تو کل وہاں آپ سے براءت کا اظہار کرے گا۔
15- اچھے اور برے کلمہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔ پھر انسان پر اللہ کی بعض نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ تو کیا ہم نے اللہ کی ان نعمتوں کا شکر ادا کیا؟
16- ابراہیم علیہ السلام کے مکہ تشریف لانے میں اللہ پر توکل اور اللہ کی تعظیم و توقیر جیسے کئی شاندار واقعات موجود ہیں۔
17- سورہ ابراہیم کی آخری آیات میں قیامت کے دن ظالموں کے انجام اور مجرموں کی حالت زار کا بیان ہے۔ اس بڑے دن ظالموں کے لئے تباہی اور بربادی ہو۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•
حاشیہ:
(1) دس اوصاف:
1- اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرنا
2- پختہ عہد و معاہدہ کو نہ توڑنا
3- رشتوں کو جوڑنا
4- اللہ رب العزت سے ڈرنا
5- بروز قیامت برے حساب سے ڈرنا
6- اللہ کی رضا کی خاطر صبر کرنا
7- نماز قائم کرنا
8- خفیہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
9- اعلانیہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا
10- برائی کو اچھائی کے ذریعہ دور کرنا

This Post Has One Comment

Leave a Reply