🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *چودہواں پارہ* ☆☆
1- سورہ حجر کی ابتدا میں اللہ کے اپنی کتاب (قرآن) کی حفاظت كا ذمه لينے کا ذکر ہے اور گزشتہ انبیاء کرام کے واقعات کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کو دلاسہ اور تسلی دینے کا بیان ہے۔
2- کائنات میں اللہ کی عظیم الشان کاریگری کی طرف اشارہ نیز (بروز قیامت) دوبارہ زندہ کئے جانے اور اس کے امکان پر دلائل کا تذکرہ ہے۔
3- ﴿وَٱلۡأَرۡضَ مَدَدۡنَٰهَا وَأَلۡقَيۡنَا فِيهَا رَوَٰسِيَ وَأَنۢبَتۡنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيۡءٖ مَّوۡزُونٖ١٩ وَجَعَلۡنَا لَكُمۡ فِيهَا مَعَٰيِشَ وَمَن لَّسۡتُمۡ لَهُۥ بِرَٰزِقِينَ٢٠ وَإِن مِّن شَيۡءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَآئِنُهُۥ وَمَا نُنَزِّلُهُۥٓ إِلَّا بِقَدَرٖ مَّعۡلُومٖ٢١ وَأَرۡسَلۡنَا ٱلرِّيَٰحَ لَوَٰقِحَ فَأَنزَلۡنَا مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءٗ فَأَسۡقَيۡنَٰكُمُوهُ وَمَآ أَنتُمۡ لَهُۥ بِخَٰزِنِينَ٢٢﴾ (سورة الحجر19-22) ترجمہ : اور زمین کو ہم نے پھیلا دیا ہے اور اس پر ( اٹل ) پہاڑ ڈال دیئے ہیں اور اس میں ہم نے ہرچیز ایک معین مقدار سے اگادی ہے۔ اور اسی میں ہم نے تمہاری روزیاں بنادی ہیں اور جنہیں تم روزی دینے والے نہیں ہو ۔ اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں ، اور ہم ہرچیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔ اور ہم بھیجتے ہیں بوجھل ہوائیں پھر آسمان سے پانی برسا کر وہ تمہیں پلاتے ہیں اور تم اس کا ذخیرہ کرنے والے نہیں ہو۔
یہ آیات رزق کے متعلق انسان کے خوف اور اندیشے کو ختم کرتی ہیں۔ بس اللہ پر توکل کے ساتھ (حصول رزق کے) اسباب اپنانے کی ضرورت ہے۔
4- اس پارے میں انسان و جنات کے آغازِ تخلیق کی تفصیل، ابلیس کو سجدہ کا حکم اور سجدے کے متعلق ابلیس کی حجت بازی کا ذکر ہے۔ اور کس طرح حسد اور تکبر کرنے کی پاداش میں وہ رحمت الہی سے دھتکارا گیا۔ اور معاصی کو مزین کر کے ہمارے سامنے پیش کرنے کا وہ کتنا حریص ہے تاکہ اس کی طرح ہم بھی تباہ و برباد ہو جائیں۔ اس لیے ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے۔
5- ﴿نَبِّئۡ عِبَادِيٓ أَنِّيٓ أَنَا ٱلۡغَفُورُ ٱلرَّحِيمُ٤٩ وَأَنَّ عَذَابِي هُوَ ٱلۡعَذَابُ ٱلۡأَلِيمُ٥٠﴾ (الحجر49-50) ترجمہ : میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا ہی مہربان ہوں۔ اورساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت دردناک ہیں۔
اگر ایک مومن بندہ ان دونوں آیتوں کو بغور پڑھ لے تو خوف و امید کے درمیان رہتے ہوئے اللہ کی طرف گامزن ہوگا۔ جہاں نہ وہ مایوسی کا شکار ہوگا اور نہ وہ سستی اور لاپرواہی سے کام لے گا۔
6- ابراہیم علیہ السلام کا قصہ تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ اس میں سختی حالات کے باوجود لفظ ”بُشری“ یعنی بشارت کا ذکر کئی بار آیا ہے۔تو کیسے اس کے بعد کوئی مومن بندہ مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے؟
7- قوم لوط کے قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہوں میں منہمک اور لت پت ہونے سے اخلاق و کردار بگڑ جاتے ہیں اور شرم و حیا ختم ہو جاتی ہے۔
8- سورہ حجر کے آخر میں ایک علاج بتایا گیا ہے کہ جو شخص اپنے سینے میں تنگی محسوس کرے اسے تسبیح اور عبادت کی پابندی کرنی چاہیے۔ آخر کی ان تین آیات پر غور کیجیے: ﴿وَلَقَدۡ نَعۡلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدۡرُكَ بِمَا يَقُولُونَ٩٧ فَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ ٱلسَّٰجِدِينَ٩٨ وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأۡتِيَكَ ٱلۡيَقِينُ٩٩﴾ (سوره الحجر97-99) ترجمہ : ہمیں خوب علم ہے کہ ان باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے ۔ آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں ۔ اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
9- سورۃ النحل کو سورۃ النعم (نعمتوں والی سورت) بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں غور کریں اور نعمت عطا کرنے والے رب کا بار بار شکر بجا لائیں۔ اگرچہ یہاں ان نعمتوں سے مراد وہ ظاہری اور حسی نعمتیں ہیں جیسے سواری، لباس اور گھر وغیرہ کی نعمتیں۔ تاہم یہاں ایک اور نعمت کی طرف اشارہ ہے جو تمام نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت ہے اور وہ ہے قرآن کریم کے نزول کی نعمت۔ چنانچہ اس نعمت کا ذکر تین بار آیا ہے۔
10- سورہ نحل میں اللہ کی وحدانیت اور مشرکین کی دلیلوں کے غلط ہونے پر کئی دلیلوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
11- بہت ساری نعمتوں کے تذکرے کے بعد اللہ تعالی نے اس بستی کا ذکر فرمایا ہے جس نے اللہ کی نعمتوں کی ناقدری کی۔ اور کس طرح اللہ نے اسے عذاب سے دوچار کیا۔ لہذا ہمیں نعمتوں کی ناقدری کرنے سے بچنا چاہیے تاکہ ہم بھی اس بستی کی طرح عذاب سے دوچار نہ ہوں۔
12- اس سورت کے آخر میں حکمت و بصیرت اور بہترین نصیحت کے ذریعے دعوت وتبلیغ کی ترغیب دی گئی ہے۔ اور دعوت کی راہ میں آنے والی تکلیفوں پر داعی کو صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

Pingback: فہرست : قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات – Kifayatullah Sanabili