☆☆ *سولہواں پارہ* ☆☆

You are currently viewing ☆☆ *سولہواں پارہ* ☆☆

☆☆ *سولہواں پارہ* ☆☆

🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *سولہواں پارہ* ☆☆
1- اقتدار کا فتنہ ذوالقرنین کے قصے سے عیاں ہوتا ہے۔ یہ ارباب قوت و اقتدار کے لئے ایک مثال اور نمونہ ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے استعمال کریں۔
2- سوره کہف کے اختتام پر اللہ کے پاس پیش ہونے والے دن کے مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ نیز کافروں اور مومنوں کے انجام کو بیان کیا گیا ہے۔
3- سورہ مریم میں لفظ رحمت اپنے مختلف مشتقات کے ساتھ بیس مرتبہ آیا ہوا ہے(1)۔ لہذا آپ اس میں رحمت کے مقامات کو تلاش کریں اور رحمت کے اسباب پر غور کریں تاکہ آپ بھی اس رحمت الهي سے سرفراز ہو سکیں۔
4- سورہ مریم میں بالواسطہ طور پر تقوی کے پانچ فوائد بیان کئے گئے ہیں(2)۔ آپ ان فوائد کو ڈھونڈ کر نکالنے کی کوشش کریں۔
5- سورہ مریم کی ابتدا میں زکریا علیہ السلام کا قصہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالی نے زکریا علیہ السلام کو سر کے بال سفید ہو جانے اور عورت کے بانجھ ہونے کے باوجود انھیں اولاد سے نوازا۔ تو کیا اب اس کے بعد بھی کوئی شخص ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے؟
6- اس پارے میں مریم علیہا السلام سے عیسی علیہ السلام کی ولادت کے قصے کا تفصیلی ذکر اور بچپن میں ان کے کلام کرنے کا بیان ہے کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر کیسے وہ لوگ جو عیسی علیہ السلام کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں؟ وہ کیسے انھیں اللہ یا اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں؟ اللہ کی ذات اس سے بلند و بالا ہے۔
7- اس پارے میں ابراہیم علیہ السلام کا قصہ اور بتوں کی عبادت کے متعلق باپ سے بحث و تکرار کرنے کا بیان ہے اور بحث و تکرار کے درمیان بار بار شفقت بھرے انداز میں اپنے مشرک باپ کو ”یا ابت“اے میرے ابا جان کہہ کر مخاطب کرنے کا ذکر ہے۔ اس میں دعاة و مبلغین کے لیے سبق اور نصیحت ہے کہ وہ دعوت و تبلیغ کے وقت والدین کے ساتھ شفقت و نرمی کا رویہ اپنائیں۔
8- اس پارے میں انبیاء کرام کے بعض قصوں کا تذکرہ ہے۔ اور ہر نبی کے اپنے کچھ خاص اوصاف اور خصوصیات ہیں جو غور کرنے کے لائق ہیں۔ اور ہر نبی کے قصے میں اقتدا کے قابل پہلو اور مقامات کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے جیسے اسماعيل علیہ السلام کے قصے میں وعدہ کا سچا ہونا اور گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دینے کا ذکر وغیرہ۔
9- اس کے بعد میدان محشر کی ایسی منظر کشی کی گئی ہے جس سے اہل ایمان کے دل کانپ جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کے شبہات کی تردید کی گئی ہے جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ کا کوئی بیٹا ہے۔ اللہ کی ذات اس سے بلند و بالا ہے۔
10- سوره طٰہٰ کے آغاز میں موسی علیہ السلام کے بچپن کا تفصیلی ذکر، نیز بچپن اور کمزوری کے ايام میں اللہ کی طرف سے ملنے والی نصرت وتائید کا ذکر ہے۔ کیسے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ ان کی دعاؤں کو قبول کیا اور ان کی دعوت کے لئے طاقت و قوت کا سامان مہیا کیا۔
11- خوف کے وہ عارضی حالات جو فرعون کی طرف بھیجے جانے اور جادوگروں سے مقابلے کے وقت موسی علیہ السلام کو لاحق ہوئے وہ اللہ کی معیت، اس کی نشانیاں اور اپنے بھائی کی تائید حاصل ہونے کے بعد زائل ہوگئے۔ اس لیے آپ بھی اللہ کی معیت حاصل کریں اور پریشان نہ ہوں۔
12- فرعون کے جادوگر صبح میں کافر تھے اور شام میں نیک اور مومن بن گئے۔ غور کریں کہ ایمان کس قدر تیزی سے ان کے دلوں میں جاگزیں ہو گیا۔
13- بنی اسرائیل پر اللہ کےفضل و احسان کا بیان ہے کہ وہ مصر سے نکل کر سیناء کے راستے شام نکل گئے اور ان کی نگاہوں کے سامنے فرعون اور اس کی قوم غرقاب ہوگئی تاکہ اسے دیکھ کر اہل ایمان کے دلوں کو سکون اور ٹھنڈک نصیب ہو۔
14- موسی علیہ السلام کی غیر موجودگی میں سامری نے بچھڑا بنایا تاکہ بنی اسرائیل اس کی عبادت کریں۔ اور اپنے اس غلط عمل يعني بچھڑے کو بنا سنوار کر خوبصورت انداز میں پیش کیا تاکہ جاہلوں میں یہ غلط عمل رواج پاسکے۔ لہذا باطل کی طرف بلانے والوں سے ہوشیار رہیں خواہ وہ کتنا ہی اپنے باطل کو بنا سنوار کر پیش کریں۔
15- سورہ طہ کی آخری آیات میں قیامت کے دن اللہ کے ذکر سے اعراض کرنے والوں کا انجام اور اس دن پیش آنے والے ہولناک اور ذلت و رسوائی کے مناظر کی ایک تصویر پیش کی گئی ہے۔
16- آدم علیہ السلام کے قصے اور شیطان کے انھیں بہکانے کا واقعہ بیان کرکے شیطان کی انسان سے دشمنی کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے باپ آدم علیہ السلام کے دشمن سے بچنے اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
17- سورہ طہ کے اختتام پر نبی اکرم ﷺ کو مشرکین کی باتوں پر صبر و تسلی رکھنے اور دین پر ثابت قدم رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہےکہ دشمنوں سے مقابلہ کرنے میں سب سے اہم اور کارگر ہتھیار صحیح طریقہ پر نماز قائم کرنا ہے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•
حاشیہ:
(1) لفظ رحمت اور اس کے مشتقات:
ٱلرَّحۡمَٰنِ 16 بار (ان آیات میں: 18، 26، 44، 45، 58، 61، 69، 75، 78، 85، 87، 88، 91، 92، 93، 96)
رَحۡمَة دو بار (آیت نمبر 2 اور 21 میں)
رَحْمَتِنا دو بار (آیت نمبر 50 اور 53 میں)
(2) تقوی کے پانچ فوائد:
1- تقوی برائی اور بے حیائی سے روکتا ہے۔ ﴿قَالَتۡ إِنِّيٓ أَعُوذُ بِٱلرَّحۡمَٰنِ مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيّٗا﴾ (مريم 18)
2- جنت کی کامیابی کا ضامن ہے۔ ﴿تِلۡكَ ٱلۡجَنَّةُ ٱلَّتِي نُورِثُ مِنۡ عِبَادِنَا مَن كَانَ تَقِيّٗا﴾ (مريم 63)
3- جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے۔﴿ثُمَّ نُنَجِّي ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّنَذَرُ ٱلظَّٰلِمِينَ فِيهَا جِثِيّٗا﴾ (مريم 72)
4- متقی لوگ روز قیامت اللہ کے معزز مہمان ہوں گے۔ ﴿يَوۡمَ نَحۡشُرُ ٱلۡمُتَّقِينَ إِلَى ٱلرَّحۡمَٰنِ وَفۡدٗا﴾ (مريم 85)
5- قرآن متقیوں کے لیے بشارت ہے۔ ﴿فَإِنَّمَا يَسَّرۡنَٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ ٱلۡمُتَّقِينَ﴾ (مريم 97)

This Post Has One Comment

Leave a Reply