امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن ابن طاوس، عن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن أبيه، أخبره قال: لما قتل عمار بن ياسر دخل عمرو بن حزم على عمرو بن العاص، فقال: قتل عمار، وقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «تقتله الفئة الباغية» فقام عمرو يرجع فزعا حتى دخل على معاوية، فقال له معاوية: ما شأنك؟ فقال: قتل عمار، فقال له معاوية: قتل عمار فماذا؟ قال عمرو: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «تقتله الفئة الباغية»، فقال له معاوية: دحضت في قولك ، أنحن قتلناه إنما قتله علي وأصحابه، جاءوا به حتى ألقوه تحت رماحنا - أو قال: بين سيوفنا -“
”محمد بن عمرو رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ : جب عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: عمار رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ، اور میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”عمار کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا“ تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تم بے مطلب کی بات کرررہے ہو کیا ہم نے انہیں قتل کیا ہے ؟ انہیں تو علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے ان کو لیکر آئے اور ہمارے نیزوں کے بیچ ڈال دیا“ [ الجامع - معمر بن راشد 11/ 240 ، مصنف عبد الرزاق 10/ 278 ط التأصيل الثانية]
یہ ان روایات میں سب سے مضبوط روایت مانی جاتی ہے جنہیں پیش کرکے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے گردوہ کو باغی قرار دیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے ۔
اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ عمرو بن حزم رضی اللہ عہ جنگ صفین میں شامل تھے ، حالانکہ جنگ صفین سے بہت پہلے عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا ، مؤرخین نے اپنی تاریخی کتب میں بہت ساراکوڑکباڑکٹھا کردیا ہے لیکن کسی بھی مؤرخ نے جنگ صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔اوراس کی وجہ یہی ہے کہ جنگ صفین سے پہلے ہی یہ صحابی اس دنیا سے رخصت کرگئے ۔
عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات
بعض نے ان کی تاریخ وفات 51ہجری کے آس پاس بتلائی ہے ، لیکن یہ غلط ہے اور صحیح بات یہ ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔ چنانچہ:
امام إبراهيم بن المنذر الحزامي،المدني رحمه الله (المتوفى236) نے کہا:
”عمرو بن حزم يكنى أبا الضحاك، توفي في خلافة عمر بن الخطاب“
”عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالضحاک ہے اور عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے“ [ معرفة الصحابة لأبي نعيم 4/ 1981 ، وإسناده صحيح وأخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق 45/ 477 من طريق أبي نعيم به ، وانظر: إكمال تهذيب الكمال 5/ 524 ]
امام أبو العباس محمد بن إسحاق الثقفي،رحمه الله (المتوفى313) نے کہا:
”عمرو بن حزم يكنى أبا الضحاك توفي في خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة“
”عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالضحاک ہے اور مدینہ میں عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ان کی وفات ہوئی ہے“ [الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم: 4/ 350، وإسناده صحيح]
امام أبو أحمد الحاكم رحمه الله (المتوفى378) نے بھی عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں ان کی تاریخ وفات میں صرف ابوالعباس الثقفی کا مذکورقول ہی نقل کیا ہے :[الأسامي والكنى لأبي أحمد الحاكم: 4/ 350]
مذکورہ ائمہ نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی جو تاریخ وفات بتلائی ہے درج ذیل امور کی بناپر وہی راجح ہے۔
اول:
عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے ایک پوتے امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ ہیں یہ بہت بڑے عابد وعالم اور مدینہ کے قاضی وامیر تھے ۔
نیز یہ صحیحین سمیت کتب ستہ کے ثقۃ رجال میں سے ہیں ،امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں لکھا ہے :
”أحد الأئمة الأثبات“ ، ”یہ اثبات ائمہ میں سے ایک ہیں“ [سير أعلام النبلاء للذهبي: 5/ 314]
لیکن انہوں نے اپنے دادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں پایا۔
امام مزی رحمہ اللہ نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کے پوتے امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
”وابن ابنه أبو بكر محمد بن عمرو بن حزم ،ولم يدركه“
”ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنےدادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کازمانہ نہیں پایا“ [تهذيب الكمال للمزي: 21/ 586]
حافظ مغلطای جو امام مزی کی غلطیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کرنکالتے ہیں انہوں نے بھی امام مزی کی اس بات پر کوئی نقد نہیں کیا ہے ، جس کا مطلب یہ ہے کہ امام مزی کی یہ بات درست ہے۔
عرض ہے کہ :
یہ بات تبھی ممکن ہے جب ہم ان ائمہ کی بات مان لیں جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی ہی میں بتلائی ہے ۔
ورنہ اگر دوسرے اقوال کی بنیاد پر یہ مانیں کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات 51 ہجری میں ہوئی ہے تو پھر اس وقت ان کے پوتے امام ابوبکر بن محمدرحمہ اللہ کی عمر 15 سال کی ہوگی،چنانچہ:
امام ابن معین ، امام ابن المدینی ، امام ابوعبید سمیت جمہورمحدثین کے بقول ابوبکر بن محمد کی وفات 120میں ہوئی ہے ۔[تهذيب الكمال للمزي: 33/ 142،الوافي بالوفيات للصفدي: 10/ 155]
اور ان کی کل عمر 84سال بتلائی گئی ہے ۔[تهذيب الكمال للمزي: 33/ 142، الطبقات لابن سعد ت عبد القادر: 5/ 336]
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی تاریخ پیدائش 36 ہجری ہے ۔یعنی اپنے دادا عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت یہ 15 سال کے تھے ۔
پھر یہ کہنا کیسے ممکن ہوگا کہ امام ابوبکر بن محمد رحمہ اللہ نے اپنے دادا اور صحابی رسول عمروبن ٖحزم رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ۔
ظاہر ہے کہ یہ تبھی ممکن ہے جب ان کے دادا عمروبن ٖحزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں ہی ہوئی ہے جیسا کہ بعض محدثین نے صراحت کی ہے ،کمامضی ۔
دوم:
اگرعمروبن حزم رضی اللہ عنہ 51 ہجری تک باحیات ہوتے تو اس دور کےصحابہ وتابعین سے جس طبقہ نےاحادیث روایت کی ہیں ،وہ ان سے بھی روایت کرتے مگرکتب احادیث میں یہ ریکارڈ نہیں ملتا۔
سوم:
عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ایک عظیم صحابی ہیں ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص عمال و دعاۃ میں سے ہیں اگر ایسی عظیم شخصیت نے جنگ صفین میں شرکت کی ہوتی تو اس بات کی شہرت ہوجاتی اور مؤرخین جنگ صفین کے واقعات میں ان کی شرکت کا تذکرہ ضرور کرتے ، مگرصفین کی تاریخ بیان کرنے والے کسی بھی مؤرخ نے صفین میں ان کی شرکت کا ذکر نہیں کیاہے ۔
.
یہ تمام شواہد بتلاتے ہیں کہ انہیں ائمہ کی بات درست ہے جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے ۔
اس کے برخلاف جن اہل علم نے ان کی تاریخ وفات 50 ہجری کے بعدبتلائی ہے وہ بعض ضعیف ومردود روایات کے سبب غلط فہمی کے شکار ہوئے ہیں ۔مثلا:
(الف)
اس سلسلے میں سب سے بڑی غلط فہمی محمدبن سیرین کی ایک ضعیف روایت سے ہوئی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ یزید کی ولیعہدی سے متعلق بات چیت کرنے کے لئے مدینہ سے شام معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔چنانچہ بعض اہل علم نے اسی روایت کا حوالہ دے کر ان کی تاریخ وفات 51 ہجری کے بعد بتلائی ہے ۔ چنانچہ:
محمدبن عمر الواقدی کا بیان ہے:
”وبقي عمرو بن حزم حتى أدرك بيعة معاوية بن أبي سفيان لابنه يزيد، ومات بعد ذلك بالمدينة“
”اور عمروبن حزم رضی اللہ عنہ باحیات رہے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب اپنے بیٹے یزید کے لئے ولیعہدی کی بیعت لی تو وہ دور بھی انہوں نے پایا اس کے بعد مدینہ میں ان کی وفات ہوئی“ [الطبقات الكبير لابن سعد ت عمر: 5/ 318]
عرض ہے کہ واقدی نے عہد معاویہ میں ان کی وفات کے لئے محمدبن سیرین سے منقول اسی واقعہ کو بنیاد بنایا ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت یزید کے سلسلے میں بات کرنے کے لئے مدینہ سے شام گئے تھے ، اور پھر بات کرکے مدینہ واپس آئے۔
اور اسی روایت کو بنیاد بناتے ہوئے دیگر کئی اہل علم بھی یہ بات کہتے گئے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات 51 ہجری کے بعد ہوئی ہے۔
ابن الأثير (المتوفى 630) لکھتے ہیں:
”وقيل: إنه توفي في خلافة عمر بن الخطاب بالمدينة، والصحيح أنه توفي بعد الخمسين، لأن محمد بن سيرين روى أنه كلم معاوية بكلام شديد لما أراد البيعة ليزيد“
”کہا گیا ہے کہ ان کی وفات عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوئی ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ 50 ہجری کے بعد بھی باحیات رہے کیونکہ محمدبن سیرین نے روایت کیا ہے کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے سختی سے بات کی جب انہوں نے یزید کی بیعت کا ارادہ کیا“ [أسد الغابة ط العلمية 4/ 202]
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) لکھتے ہیں:
”قال أبو نعيم: مات في خلافة عمر، كذا قال إبراهيم بن المنذر في الطبقات. ويقال بعد الخمسين. قلت: وهو أشبه بالصواب، ففي مسند أبو يعلى بسند رجاله ثقات- أنه كلم معاوية في أمر بيعته ليزيد بكلام قوي“
”امام ابونعیم نے کہا ہے کہ : عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عمررضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے ، یہی بات امام ابراہیم بن المنذر نے طبقات میں کہی ہے ، اور کہا جاتا ہے کہ 50 ہجری کے بعد ان کی وفات ہوئی ہے اور یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ ابویعلی کی مسند میں ثقہ رجال کے ساتھ ایک روایت میں ہے کہ عمروبن حزم رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے یزید کی بیعت کو لیکر ٹھوس بات کی“ [الإصابة في تمييز الصحابة 4/ 512]
ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی محمدبن سیرین ہی کی روایت کی طرف اشارہ کیا ہے ،اور اس کے رجال کے ثقہ ہونے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ روایت منقطع ہے ۔
البتہ یہ واقعہ ایک دوسری صحیح سند سے ثابت ہے لیکن اس میں عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کاذکر نہیں بلکہ ان کے بیٹے محمدبن عمرو رحمہ اللہ کاذکر ہے ۔اس کی پوری تفصیل ہم نے اپنی کتاب یزید بن معاویہ کے اخیرمیں بیان کردی ہے دیکھیں: [یزید بن معاویہ پر الزامات کا جائزہ: ص898 تا 906]
یادرہے کہ خود محمد بن عمر الواقدی نے بھی عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی وفات عہد فاروقی میں بتلائی ہے جیساکہ حافظ مغطلائ نے ان کی کتاب سے نقل کیا ہے۔[ إكمال تهذيب الكمال 5/ 524]
لیکن مذکورہ مردود روایت کو بنیاد بناکر واقدی نے یہ کہہ دیا کہ ان کی وفات یزید کی بیعت ولیعہدی کے بعد ہوئی ہے ۔
(ب)
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571) لکھتے ہیں:
”قال الهيثم حدثني صالح بن حبان عن ولد عمرو بن حزم أنه توفي سنة إحدى وخمسين“
”عمروبن حزم کے ایک لڑکے کا بیان ہے کہ ان کی وفات 51 ہجری میں ہوئی ہے“ [تاريخ دمشق لابن عساكر: 45/ 483]
عرض ہے کہ اس سند میں ہیثم اور عمروبن حزم کے بیچ کسی بھی راوی کی توثیق نہیں ملتی ، توثیق تو درکنار کسی کا ترجمہ بھی نہیں ملتا ، لہٰذا یہ بات ثابت ہی نہیں ۔
ہیثم کے علاوہ اس روایت کا ذکر کسی نے نہیں کیا ہے ، دیگر اہل علم جنہوں نے عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کی تاریخ وفات 50 ہجری کے بعد بتلائی ہے انہوں نے محمدبن سیرین والی ضعیف روایت پر ہی اعتماد کیا ہے جس وضاحت اوپر ہوچکی ہے ۔
.
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ عمروبن حزم رضی للہ عنہ جنگ صفین کے وقت باحیات ہی نہ تھے ، لہٰذا جس روایت میں انہیں جنگ صفین میں شریک بتایا جارہا ہے وہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔
.
زیر بحث روایت کی سند پر بحث:
اب رہی بات یہ کہ اگر یہ روایت جھوٹی ہے اوراس میں ایک ناممکن بات کا بیان ہے تو اس سند میں کس راوی سے چوک ہوئی ہے جس نے یہ روایت بیان کردی ۔
توعرض ہے کہ یہ چوک اس سند میں موجود....
The remaining article is locked
Become a subscribed member to unlock the article
Your support helps us to bring more article
باقی مضمون مقفل ہے
مضمون کو غیر مقفل کرنے کے لیے سبسکرائبر ممبر بنیں
آپ کے تعاون سے مزید مضامین لکھنے میں مدد ملتی ہے
ممبر بنے بغیر اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے بٹن پر جاکر( سو روپے ) ادا کریں۔
This post has restricted content. In order to access it, You must pay INR100.00 for it.
Pingback: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر الزامات کا جائزہ – Kifayatullah Sanabili