اکٹھی دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے

You are currently viewing اکٹھی دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے

اکٹھی دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے

اکٹھی دی گئی تین طلاق ایک ہوتی ہے
تحریر: کفایت اللہ سنابلی
✿ ✿ ✿
تین طلاق کا مسئلہ عہدرسالت میں بھی پیش آچکا ہے اور عدالت نبوی میں اس کا فیصلہ بھی ہوچکا ہے۔ نبوی عدالت سے بڑھ کر نہ کوئی عدالت ہے اورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر کوئی فیصلہ کرسکتاہے۔ملاحظہ فرمائيں:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
”حدثنا سعد بن إبراهيم ، حدثنا أبي ، عن محمد بن إسحاق ، حدثني داود بن الحصين ، عن عكرمة ، مولى ابن عباس ، عن ابن عباس ، قال : طلق ركانة بن عبد يزيد أخو بني المطلب امرأته ثلاثا في مجلس واحد ، فحزن عليها حزنا شديدا ، قال : فسأله رسول الله صلى الله عليه وسلم : «كيف طلقتها ؟» قال : طلقتها ثلاثا ، قال : فقال : «في مجلس واحد ؟ » قال : نعم قال : «فإنما تلك واحدة فأرجعها إن شئت» قال : فرجعها فكان ابن عباس : يرى أنما الطلاق عند كل طهر“
”عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رکانہ بن عبدیزید نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے دی، پھر اس پر انہیں شدید رنج لاحق ہوا ، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے کیسے طلاق دی ؟“ انہوں نے کہا: میں نے تین طلاق دے دی ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم نے پوچھا: ”کیا ایک ہی مجلس میں ؟“ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر یہ ایک ہی طلاق ہے تم چاہو تو اپنی بیوی کو واپس لے لو“ ، چنانچہ انہوں نے اپنی بیوی کو واپس لے لیا ۔ اس حدیث کی بنا پر ابن عباس رضی اللہ عنہ فتوی دیتے کہ طلاق الگ الگ طہر میں ہی معتبر ہوگی“ [مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 265 رقم 2387 وإسناده صحيح ، ومن طريق أحمد أخرجه الضياء المقدسي في ”المختارة“ (11/ 363) والذهبي في ”تاريخ الإسلام“ (8/ 410 ، ت تدمري )۔وأخرجه أيضا البيهقي في ”السنن الكبرى“ ( 7/ 339،ط الهند) من طريق عبد الله بن سعد عن أبيه عن عمه إبراهيم بن سعد ۔وأخرجه أيضا أبويعلى في ”مسنده“ (4/379 ) من طريق يونس بن بكير ، وأبو نعيم في ”معرفة الصحابة“ (2/ 1113 ) من طريق يزيد بن هارون كلهم( إبراهيم بن سعدو يونس بن بكيرو يزيد بن هارون) عن ابن إسحاق به ]
.
یہ حديث بلاتردد بالکل صحیح اور بے داغ ہے۔

اس حدیث کو صحیح قرار دینے والے محدثین:
اسے درج ذيل محدثين نے صحيح قرار ديا ہے:
➊ امام أحمد بن حنبل رحمه الله (م241) [مسائل أحمد رواية أبي داود- ت طارق ص: 236، مجموع الفتاوى :33/ 73 ، 86 ]
➋ امام أبو يعلى رحمه الله (م307) [ فتح الباري 9/ 362]
➌ أبو الحسن علي بن عبدالله اللخمي (م570)[الوثائق كما في إغاثة اللهفان 1/ 326]
➍ امام ضياء الدين المقدسي رحمه الله (م643) [ المختارة:11/ 363 ]
➎ شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله (م728)[ مجموع الفتاوى 33/ 67]
➏ امام ابن قيم رحمه الله (م751)[إغاثة اللهفان 1/ 287]
➐ حافظ ابن حجر رحمه الله (م852)[ فتح الباري 9/ 362 سكت عليه وأقر تصحيح أبي يعلي]
➑ علامہ أحمد شاكر(م1377)[مسند أحمد ت شاكر 3/ 91 تحت الرقم2387]
➒ علامہ المعلمي رحمه الله (م1386)[آثار الشيخ المعلمي 17/ 604، اشار إلي صحته]
➓ علامہ البانی رحمہ اللہ(م1420)[إرواء الغليل 7/ 145 ]

احناف کے اصول سے بھی یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ

The remaining article is locked
Become a subscribed member to unlock the article
Your support helps us to bring more article
باقی مضمون مقفل ہے
مضمون کو غیر مقفل کرنے کے لیے سبسکرائبر ممبر بنیں

آپ کے تعاون سے مزید مضامین لکھنے میں مدد ملتی ہے

ممبر بنے بغیر اس مضمون کو مکمل پڑھنے کے لئے نیچے دئے گئے بٹن پر جاکر( سو روپے ) ادا کریں۔
نوٹ:- ر قم کی ادائیگی کے بعد اگر باقی مضمون ظاہر نہ ہو تو لاگ آؤٹ ہوکر دوبارہ لاگن ہوں مکمل مضمون فورا ظاہر ہوجائے گا۔

This post has restricted content. In order to access it, You must pay INR100.00 for it.

Leave a Reply