🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *چھبیسواں پارہ* ☆☆
1- سورہ احقاف کے آغاز میں زمین و آسمان کی مستحکم اور مضبوط تخلیق کا ذکر کر کے اللہ کی وحدانیت پر استدلال کیا گیا ہے۔
2- وحی اور وحی کو لانے والے کی صداقت کا تذکرہ ہے۔
3- والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم اور انھیں اُف تک کہنے سے خبردار کیا گیا ہے۔
4- احقاف کے واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب بسا اوقات نعمت کی شکل میں آتا ہے جو انسان کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ جیسا کہ قوم هود نے بارش کو نعمت سمجھ لیا تھا۔
5- غور کیجئے کہ کس طرح جنات ایک ہی نشست میں قرآن سننے کے بعد اسلام کو سمجھ گئے تھے۔ تو کیا آپ نے کبھی اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ قرآن کا آپ پر کیا اثر ہوا ہے جب کہ آپ نے اسے بارہا سنا ہے۔
6- احقاف کے اختتام پر کائنات میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے۔ پیشی کے دن یعنی قیامت کی دہانی کرائی گئی ہے۔ اور صبر کے معاملے میں انبیائے کرام کے نقش قدم پر چلنے کی تلقین کی گئی ہے۔
7- سورہ محمد کی ابتداء میں اہل ایمان کو کفار سے جنگ کرنے پر ابھارا گیا ہے اور دونوں فریق کے انجام کا بیان ہے۔
8- جنت اور اس کی نعمتوں، جہنم اور اس کے عذاب کا بیان ہے۔ تاکہ نیک انسان کے دل میں جنت کا شوق پیدا ہو اور برا انسان جہنم سے خوف کھائے۔
9- اس سورت میں منافقین کے بعض اوصاف کا تذکرہ ہے۔ اور تدبر قرآن کے ذریعے انہیں اپنے دلوں کی بیماریوں کے علاج کی دعوت دی گئی ہے۔
10- سورہ محمد کے اختتام پر مسلمانوں کو چند نصیحتیں کی گئی ہیں۔ اس میں سب سے اہم نصیحت حق پر ثابت قدم رہنے کی ہے۔ اور اگر وہ لوگ روگردانی کریں گے تو اللہ تعالی انھیں بدل کر کوئی اور قوم لے آئے گا۔
11- سورہ فتح کی ابتدا میں صلح حدیبیہ کے اچھے انجام کے متعلق اہل ایمان کو بشارت سنائی گئی ہے اور اس انجام خیر کو فتح و کامرانی قرار دیا گیا ہے جبکہ ابتداء میں بظاہر وہ فتح و کامرانی نہیں معلوم ہو رہی تھی۔
12- اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے اور ان کے حزن و ملال کو دور کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا کہ برا انجام منافقوں اور مشرکوں کے لیے ہے۔ لہذا اے مومن بندے تمہیں مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
13- حدیبیہ کی بیعت اور اس میں شریک ہونے والے لوگوں کے بلند مقام ومرتبہ کا بیان ہے۔ اس بیعت سے پیچھے رہ جانے والوں کی مذمت اور فتح خیبر میں شرکت سے ان کے محروم ہونے کا بیان ہے۔
14- اس سورت میں یہ واضح بیان ہے کہ درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں سے اللہ تعالی راضی ہے۔ لہذا جن سے اللہ راضی ہو ان کے متعلق طعن و تشنیع کرنے والوں کے لئے تباہی و بربادی ہے۔
15- سورہ فتح کا اختتام ایک ايسي آیت پر ہوا ہے جس میں ایک فاتح اور کامیاب قوم کےخصائص کا بیان ہے: ﴿مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾(الفتح 29)
ترجمہ: محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے مثل اس کھیتی کے جس نے اپنا انکھوا نکالا پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے، ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے۔
16- سورہ حجرات اپنے اندر مختلف آداب و اخلاق کو سمیٹے ہوئے ہے۔ لہذا آپ ان آداب و اخلاق کو تلاش کریں اور دیکھیں اس میں جو اچھے اخلاق ہیں اس کو اپنائیں اور جو برے اخلاق ہیں ان سے اجتناب کریں۔
17- اس سورت میں افواہوں کو سچ ماننے کی سنگینی کا بیان ہے۔ اور اس کا انجام عموما ندامت و پشیمانی ہوتا ہے۔ لہذا آپ جو بیان کرتے اور نشر کرتے ہیں اس کی تحقیق کریں۔ بالخصوص آج کل کے میڈیائی دور میں جہاں تحقیق کی بڑی کمی پائی جاتی ہے۔
18- ایمانی اخوت کی بنیاد کو مضبوط کیا گیا ہے اور اس کو لاحق ہونے والی ہر کمی اور کوتاہی کی اصلاح کی گئی ہے۔
19- اس سورت میں ایسے آداب اور اخلاق کا تذکرہ ہے جن سے ایک مومن کو آراستہ ہونا چاہیے۔
20- اللہ کے نزدیک افضلیت کی بنیاد حسب و نسب نہیں بلکہ تقویٰ ہے۔ اس لیے کسی ایسی چیز پر تکیہ کرنے سے بچیں جو آپ کے لئے سود مند نہ ہو۔
21- مومن کو جو بھی خیر و بھلائی اور نیکی کی توفیق ملتی ہے وہ سب اللہ کے فضل و کرم سے ملتی ہے۔ ارشاد ربانی ہے: ﴿يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُواقُل لَّا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلَامَكُم بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكُمْ أَنْ هَدَاكُمْ لِلْإِيمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ﴾ (الحجرات17) ترجمہ: اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو ، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو۔
22- سورہ ق کی ابتدائی آیات میں مشرکین کے رسول ﷺ کے جھٹلانے کا ذکر ہے۔ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے کو ثابت کرنے کے لئے ان آیات سے استدلال کیا گیا ہے جسے دیکھنے والی آنکھیں دیکھتی ہیں۔ یہ سب نشانیاں اللہ کے قدرت کی شاہد اور گواہ ہیں۔
23- کیا آپ جو باتیں کہتے ہیں اس میں اللہ کو حاضرو ناظر رکھتے ہیں۔ اور ان فرشتوں کو آپ یاد کرتے ہیں جو آپ کی ایک ایک بات نوٹ کرنے پر مامور ہیں۔ ﴿مَّا يَلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ﴾ (ق18) ترجمہ: (انسان ) منہ سے کوئی لفظ نکال نہیں پاتا مگر کے اس کے پاس نگہبان تیار ہے ۔
24- اس سورت میں سکرات الموت کے منظر کی موثر تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس کے بعد قیامت کے مناظر کا بیان ہے۔ اور جہنم کے مزید طلب کرنے کا تذکرہ ہے۔ جنتیوں کے اوصاف کا بیان ہے اور اہل جنت وہ ہیں جو اللہ کی طرف بکثرت رجوع کرنے والے اور اس کے حدود کی حفاظت و پاسداری کرنے والے ہیں۔
25- سورہ ق کے اختتام پر دوبارہ اسی موضوع پر گفتگو کی گئی ہے جس سے اس سورت کی شروعات ہوئی ہے یعنی مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے کا اثبات اور اللہ کی عظیم الشان تخلیق کے ذریعے اس پر استدلال کیا گیا ہے۔
26- سورۃ الذاریات کی ابتدائی آیات میں قیامت اور قیامت کے دن جزا وسزا کے ثبوت کا بیان اور کافروں اور متقیوں کے انجام کا ذکر ہے۔
27- کیا تمہیں اپنی روزی روٹی کے متعلق خوف لاحق ہے؟ یقین جانیں اللہ تعالی نے اپنے نفس کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ تمہارا رزق آسمان میں ایسے ہی برحق ہے جیسےتمہیں اپنے بولنے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

Pingback: فہرست : قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات – Kifayatullah Sanabili