چاروں ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر یہ خوف لاحق ہو کہ رمضان میں ان کے روزہ رکھنے سےان کے بچوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن بعد میں ان پر ان روزوں کی قضاء لازم ہے ۔
امام ابن ھبیرہ البغدادی (المتوفی 560) فرماتے ہیں:
”واتفقوا علي أن للحامل والمرضع مع خوفهما علي ولديهما الفطر وعليهما القضاء“
”ائمہ اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنے بچوں پر خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہیں لیکن بعد میں ان پر قضاء لازم ہے“ [إجماع الأئمة الأربعة واختلافهم لابن هبيره : 1 / 293]
ائمہ اربعہ کا متفقہ طور پر یہ کہنا کہ حاملہ اور مرضعہ پر روزوں کی قضاء واجب ہے ، اس کی کوئی صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔ نیز ان کا یہ موقف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے موقف کے بھی خلاف ہے ۔
صحابہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بسند صحیح ثابت ہے کہ حاملہ اور مرضعہ روزہ کی قضاء نہیں کریں گی ، چنانچہ:
امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) نے کہا:
”حدثنا أبو صالح , ثنا أبو مسعود , ثنا محمد بن يوسف , عن سفيان , عن أيوب , عن سعيد بن جبير , عن ابن عباس , أو ابن عمر , قال: الحامل والمرضع تفطر ولا تقضي“
”ابن عباس یا ابن عمر رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت روزے کی قضاء نہیں کرے گی“ [سنن الدارقطني، ت الارنؤوط: 3/ 198 رقم 2385 وإسناده صحيح]
امام ایوب رحمہ اللہ نے ابن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ذکر میں شک کیا ہے ، لیکن کسی بھی اعتبار سے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ دونوں صحابی ہیں اس لئے ثقہ وضعیف کا مسئلہ ہی نہیں ، اور دونوں سے یہ مسئلہ ثابت ہے ۔تاہم ابوعبید کی سندمیں امام ایوب نے بغیر شک کے صرف ابن عباس رضی اللہ عنہ کا نام لیا ہے ، دیکھیں:[الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلام 1/ 65]
اس لئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا تعین راجح ہے ۔
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”عن معمر، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر قال: الحامل إذا خشيت على نفسها في رمضان تفطر، وتطعم، ولا قضاء عليها“
”ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ : حاملہ عورت کو اگر رمضان میں خود پر خوف ہو تو وہ روزہ چھوڑ دے اور کھانے کا کفارہ دے اور اس پر کوئی قضاء نہیں ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 218 وإسناده صحيح]
نیز دیکھیں :[تفسير الطبري، ت شاكر: 3/ 428 ، تفسير ابن أبي حاتم: 1/ 307]
تابعین میں امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بھی یہ قول ہے چنانچہ:
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
”أخبرنا معمر، عن أيوب، عن سعيد بن جبير قال: تفطر الحامل التي في شهرها، والمرضع التي تخاف على ولدها تفطران، وتطعمان كل واحدة منهما كل يوم مسكينا، ولا قضاء عليهما“
”امام سعید بن جبیررحمہ اللہ نے کہا کہ: رمضان میں حاملہ عورت اور دودھ پلانے والی عورت جس کو اپنے بچے پر خوف ہو یہ دونوں روزہ چھوڑ دیں گے اور ہر دن ایک مسکین کوکھانا کھلائیں گے اور ان دونوں پر قضاء نہیں ہے“ [مصنف عبد الرزاق، ت الأعظمي: 4/ 216 وإسناده صحيح]
امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ(المتوفى264) نے کہا:
”الشيخ الكبير والحامل والمرضع، يطعمون لكل يوم مدا من حنطة، ولا يقضوا“
”بڑی عمر کا بوڑھا شیخ ، حمل والی اور دودھ پلانی والے عورت ، یہ سب روزآنہ ایک مد گندم کھانا (مسکین کو) کھلائیں گے اور قضاء نہیں کریں گے“ [تفسير ابن أبي حاتم: 1/ 307 وإسناده صحيح]
امام ابوزرعہ سے یہ قول ثابت ہے کیونکہ ان کے شاگرد ابن ابی حاتم نے نقل کیا ہے ۔
اس مسئلہ میں بھی چاروں ائمہ کے متفقہ فتوی کے خلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عدم قضاء کا فتوی مروی ہے ،بلکہ صحابہ میں عدم قضاء کے علاوہ کوئی دوسرا قول موجود ہی نہیں ہے اسی طرح یہ قول تابعین سے بھی ملتا ہے ، نیز امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264) کا بھی یہی قول ہے ۔ یعنی اس مسئلہ میں بھی ائمہ اربعہ کے متفقہ فتوی کے خلاف دیگر بڑے بڑے ائمہ کا قول موجود ہے۔
(کفایت اللہ سنابلی)