بھینس کی قربانی پر دعوائے اجماع کا جائزہ

You are currently viewing بھینس کی قربانی پر دعوائے اجماع کا جائزہ

بھینس کی قربانی پر دعوائے اجماع کا جائزہ

بھینس کی قربانی پر دعوائے اجماع کا جائزہ
(کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿
بھینس کی قربانی سے متعلق ایک نیا دعوی یہ کیا جارہا ہے کہ اس کے جواز پر اجماع ہے اور بطور ثبوت بعض اہل علم کی عبارات سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کی جارہی ہیں۔
آئیے ایسی عبارات کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ان میں بھینس کی قربانی کے جواز پر اجماع کا دعوی موجود ہے۔ ملاحظہ ہو:
.
① پہلی عبارت :
بعض لوگوں نے امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفى319) کی طرف دعوائے اجماع کو منسوب کیا ہے اور ان کے الفاظ نقل کئے ہیں:
«وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر»
(اہل علم کا اجماع ہے کہ بھینسوں کا حکم گائے کا حکم ہی ہے)
[الإجماع لابن المنذر ص: 45]
عرض ہے کہ:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے یہاں بھینس کی قربانی نہیں بلکہ بھینس کی زکاۃ پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔
چنانچہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے یہ بات ”کتاب الزکاۃ“ میں لکھی ہے اور ماقبل و مابعد کے ساتھ ان کی مکمل عبارت یہ ہے :
« وأجمعوا على أن في أربعين شاة شاة إلى عشرين ومائه، فإذا زادت على عشرين ومائه، ففيها شاتان إلى أن تبلغ مائتين ، وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر، وأجمعوا على أن الضان والمعز يجمعان في الصدقة »
(اہل علم کا اجماع ہے کہ چالیس سے ایک سو بیس بکری میں ایک بکری (کی زکاۃ) ہے اور اگر بکریوں کی تعداد ایک سو بیس سے زائد ہوئی تو دو بکری ( کی زکاۃ ) ہے ۔ اور اہل علم نے اس پر بھی اجماع کیا ہے کہ (زکاۃ میں ) بھینس کا حکم گائے کی طرح ہے ، اور اہل علم نے اس پر بھی اجماع کیا ہے کہ بھیڑ اور بکری کو زکاۃ میں ایک ساتھ شمار کیا جائے گا)
[الإجماع لابن المنذر :-کتاب الزکاۃ: ص: 45]
ملاحظہ فرمائیں کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ زکاۃ کے بارے میں بھینس کا حکم گائے جیسا بتارہے ہیں اور اس پر اجماع نقل کررہے ہیں لیکن بعض حضرات سیاق وسباق سے کاٹ کو اسے بھینس کی قربانی پر اجماع بتارہے ۔
.
امام ابن المنذر رحمہ اللہ کی ایک اور عبارت کے یہ الفاظ بھی نقل کئے جاتے ہیں:
«وأجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الجواميس بمنزلة البقر، كذلك قال الحسن البصري، والزهري، ومالك، والثوري، وإسحاق، والشافعي، وأصحاب الرأي. وكذلك نقول» [الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 3/ 12]
عرض ہے کہ:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے یہاں بھی بھینس کی قربانی نہیں بلکہ بھینس کی زکاۃ پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔
اس کتاب میں بھی امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے یہ بات ”کتاب الزکاۃ“ میں لکھی ہے اور ماقبل و مابعد کے الفاظ سمیت ان کی مکمل عبارت یہ ہے :
”وفيه دليل على أن لا زكاة في غير السائمة. وأجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الجواميس بمنزلة البقر، كذلك قال الحسن البصري، والزهري، ومالك، والثوري، وإسحاق، والشافعي، وأصحاب الرأي.وكذلك نقول. باب جمع الضأن والمعز في الصدقة ، أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الضأن والمعز يجتمعان في الصدقة“ [الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 3/ 12]
.
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنی دونوں کتابوں میں بھینس کی صرف زکاۃ کے بارے میں اجماع نقل کیا ہے نہ کہ اس کی قربانی کے بارے میں ۔ لہٰذا امام ابن المنذر رحمہ اللہ کی عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر پیش کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ انہوں نے بھینس کی قربانی پراجماع نقل کردیا ہے یہ بات علمی دیانت کے سراسر خلاف ہے۔
.

.
② دوسری عبارت
بعض حضرات نے ابوالحسن الماوردی رحمہ اللہ (المتوفی 450) کی کتاب سے ان کی یہ عبارت نقل کی ہے:
«كإجماعهم على أن ‌الجواميس ‌في ‌الزكاة كالبقر»
”جیسے ان کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس زکاۃ میں گائے کی طرح ہے“ [الحاوي الكبير 16/ 108 ]
صرف اتنا پڑھنے والے کے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ جیسے زکاۃ کے معاملے میں بھینس کے گائے کی طرح ہونے پر اجماع ہے ایسے ہی ان کی قربانی پر بھی اجماع ہے ۔
لیکن جب امام ماوردی رحمہ اللہ کی پوری بات پڑھیں گے تو حقیقت کچھ اور ہی نظر آئے گی آئیے ہم ان کی مکمل عبارت دیکھتے ہیں ۔
.
امام ماوردی رحمہ اللہ یہاں اجماع پر بحث کررہے اور پہلی فصل میں اجماع کی بنیاد جن دلائل پر ہوتی ہے ان کا تذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«فأما الفصل الأول فيما ينعقد عنه الإجماع: فهو ينعقد عن دليل أوجب اتفاقهم عليه لأن ما لا موجب له يتعذر الاتفاق عليه.والدليل الداعي إليه قد يكون من سبعة أوجه»
”پہلی فصل میں ان دلائل کا ذکر ہوگا جن پر اجماع کی بنیاد ہوتی ہے ، تو اجماع کا انعقاد ایسی دلیل پر ہوتا ہے جو اہل علم کے اتفاق کو واجب کرتی ہے کیونکہ کسی دلیلِ موجب کے بغیر اہل علم کا اتفاق مممکن ہی نہیں، اور ایسی دلیل سات طرح کی ہوسکتی ہے ۔“ [الحاوي الكبير (16/ 108)]
.
اس کے بعد امام ماوردی چھ دلائل ذکر کرتے ہیں پھر آگے ساتویں دلیل ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«والسابع: أن ينعقد عن استدلال وقياس، كإجماعهم على أن الجواميس في الزكاة كالبقر.»
انعقاد اجماع کی ساتویں دلیل : یہ کہ اجماع کی بنیاد ”استدلال اور قیاس“ ہو جیسے اہل علم کا اس بات پر اجماع کی زکاۃ میں بھینس گائے کی طرح ہے“ [الحاوي الكبير (16/ 108)]
قارئین کرام !
امام ماوردی رحمہ اللہ کی عبارت مکمل سیاق وسباق کے ساتھ آپ کے سامنے ہے ، یہاں وہ بھینس کی قربانی کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں کررہے ہیں بلکہ اجماع کی ایک بنیاد ”استدلال اور قیاس“ کا تذکرہ کررہے ہیں پھر اس کو مثال سے واضح کرنے کے لئے زکاۃ میں بھینس کو گائے کی طرح ماننے پر اجماع نقل کیا ہے۔
واضح رہے کہ امام ماوردی رحمہ اللہ کا اس اجماع کو ”استدلال اور قیاس“ پر مبنی قرار دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بھینس کی قربانی تو دور کی بات وہ بھینس کی زکاۃ کو بھی منصوص نہیں مانتے تھے ۔ بلکہ اسے مبنی بر قیاس واستدلال والے اجماع کے قبیل سے مانتے تھے ۔ اور یہ بات بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ قربانی جیسی عبادات میں قیاس کی نہ گنجائش ہے نہ ضرورت ہے ۔

امام روياني رحمہ اللہ (المتوفی502) نے بھی عین یہ بات ذکر کی ہے چنانچہ انہوں نے بھی اجماع بنیادیں اور ان کے اقسام بتاتے ہوئے ساتویں نمبر پر لکھتے ہیں:
«والسابع: أن ينعقد عن استدلال وقياس، كإجماعهم على أن الجواميس في الزكاة كالبقر.» [بحر المذهب للروياني (11/ 128)]
یہ حرف بحرف وہی الفاظ ہیں جو امام ماوردی نے لکھے ہیں لہٰذا اس کے تعلق سے اوپر جو کچھ بھی ہم کہہ چکے ہیں وہ یہاں بھی منطبق ہوتے ہیں ۔
الغرض یہ کہ:
امام ماوردی یا امام رویانی دونوں میں سے کسی نے بھی بھینس کی قربانی پر اجماع کا دعوی نہیں کیا ہے۔
.
.

Leave a Reply