پہلی دلیل
عن ابن عباس: أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلا لديغا أو سليما، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله»
ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کے چند صحابہ کرام چشمے پر رہنے والوں کے پاس سے گزرے۔ ان کے ہاں زہریلے کا کاٹا ہوا ایک شخص تھا۔ صحابہ کرام کے پاس ان کا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا تم میں کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ کیونکہ اس چشمے پر ایک آدمی کو کسی زہریلے جانور سے کاٹ لیا ہے۔ صحابہ کرام میں سے ایک آدمی اس کے ہمراہ گیا اور چند بکریاں لینے کی شرط پر سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہوگیا۔ وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو انہوں نے اسے اچھا خیال نہ کیا اور کہا کہ تو نے اللہ کی کتاب پڑھ کر اجرت لی ہے؟ آخر جب حضرات مدینہ طیبہ آئے تو انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس شخص نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جن چیزوں کی تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجرت لینے کے قابل اللہ کی کتاب ہے۔“ [صحيح البخاري رقم 5737]
.
اسی حدیث کو ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کیا ہے اور اس میں یہ بھی مذکور ہے اس قبیلہ والوں نے صحابہ کی مہمان نوازی نہیں کی تھی اور پھر جب وہ صحابہ کے پاس رقیہ کی درخواست لے کر آئے تو ايك صحابي نےکہا:
« فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الغَنَمِ »
”میں تمہارے لئے تب تک رقیہ نہیں کرسکتا جب تک کہ تم ہمیں اس کی اجرت نہ دو پھر ، آخرکار بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا“
پھر ان صحابہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بابت دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریا:
« قَدْ أَصَبْتُمْ » (تم نے ٹھیک کیا ) [صحيح البخاري 2276]
.
اس حدیث میں دو باتیں ہیں:
① اول یہ کہ صحابہ نے ایک عمل پر اجرت کا مطالبہ کیا ، پھر اس کی اجرت طے کی ، پھر عمل کے بعد اس اجرت کو وصول کیا ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پورے معاملے کو « قَدْ أَصَبْتُمْ » (تم نے ٹھیک کیا ) کہہ کر درست قراردیا ۔
② دوم یہ کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ایک اصولی بات یہ بیان کردی کہ :
«إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ» ، ”جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو ان میں سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہی ہے۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ایک اضافی بیان ہے جس میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات بیان کردی قرآن پر اجرت لینا سب سے بہترین اجرت ہے ۔
ایک فضول اعتراض اور اس کاجواب
ایک صاحب نے یہ فضول اعتراض کیا کہ اس حدیث میں ”جعالہ“ کی بات ہے نہ کہ ”اجرت“ کی ۔
جوابا عرض ہے کہ:
یہ بات اس حدیث کے پہلے حصہ سے متعلق کہی جاسکتی ہے جس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کا ذکر اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویب مذکورہے۔
لیکن اس حدیث کے دوسرے پر یہ جعل سازی بالکل نہیں چل سکتی کہ دوسرے حصہ میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اضافی چیز ذکر کرتے ہوئے یہ اصولی بات بیان کردی کہ قرآن سب سے زیادہ اس لائق ہے کہ اس پر اجرت لی جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام اہل علم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے استدلال کرتے ہوئے قرآن پراجرت کو جائز قرار دیا ہے ۔
نیز اس حدیث کے پہلے حصہ سے بھی اجرت کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ ”جعالہ“ اسی چیز میں جائز ہوسکتا ہے جس میں ”اجارہ“ جائز ہو۔
ابن قدامة رحمہ اللہ (المتوفی 620) فرماتے ہیں:
«وما كان عوضا في الإجارة جاز أن يكون عوضا في الجعالة، وما لا فلا»
”اور اجارہ میں جو عوض لینا جائز ہے جعالہ میں بھی وہ عوض جائز ہے اورجوعوض اجارہ میں جائز نہیں وہ جعالہ میں بھی جائز نہیں“ [المُغني لابن قدامة 6/ 96 ]
مزید فرماتے ہیں:
«وما لا يجوز أخذ الأجرة عليه في الإجارة، مثل الغناء والزمر وسائر المحرمات، لا يجوز أخذ الجعل عليه، وما يختص فاعله أن يكون من أهل القربة، مما لا يتعدى نفعه فاعله، كالصلاة والصيام، لا يجوز أخذ الجعل عليه، فإن كان مما يتعدى نفعه، كالأذان والإقامة والحج، ففيه وجهان، كالروايتين في الإجارة»
جس چیز پر اجارہ میں اجرت لینا جائز نہیں ہے جیسے گانا ، موسیقی اور دیگر محرمات تو اس چیز پر جعالہ بھی جائز نہیں ہے ، اور جس چیز کا کرنا صرف مسلمان کے لئے جائز ہو اور اس کا نفع متعدی نہ ہو جیسے نماز پڑھنا روزہ رکھنا تو اس پر جعالہ جائز نہیں ہے ، اور اگر اس کا نفع متعدی ہو جیسے اذان ، امامت اور حج بدل تواس میں اجارہ کی طرح دو قول ہے (یعنی اگر اجارہ جائز ہے تو جعالہ بھی جائز ہے اور اگر اجارہ جائز نہیں تو جعالہ بھی جائز نہیں )[المُغني لابن قدامة 6/ 96 ]
معلوم ہواکہ:
جس چیز پر جعالہ اور عوض کا مطالبہ ثابت ہوگیا اس چیز پراجرت لینا اور اجرت کا مطالبہ بھی ثابت ہوگیا ۔
یعنی یہ محض لفظی بحث ہے اسی لئے یہ بھی کاجاسکتا ہے کہ اگر کسی کو لفظ ”اجرت“ کے استعمال سےاختلاف ہے تو ٹھیک ہے لفظ ”اجرت“ استعمال نہ کریں اس کی جگہ ”عوض“ یا جو چاہیں لفظ استعمال کرلیں ۔ اسے ”جعالہ“ بولیں یا جو مرضی بولیں۔ لیکن اس بات کو تو تسیلم کریں کہ آدمی ایسے کام پر اس چیز کا مطالبہ کرسکتا ہے جو آپ کی نظر میں ”عوض“ یا کسی اور نام سے موسوم ہے۔
بالفاظ دیگر یہی تسلیم کرلیں کہ ایسے کام پر ”بطور اجارہ“ نہیں لیکن ”بطور جعالہ“ متعین رقم لینا اور اس کی ڈیمانڈ کرنا جائز ہے ۔کیونکہ اس واقعہ میں صحابہ کرام نے ڈیمانڈ کیا ہے اس حقیقت کو جھٹلانا ناممکن ہے۔
بہر حال اس حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو فرمان ہے وہ اجرت لینے پر صراحتا دلالت کرتا ہے اس میں کسی طرح کی بھی لفاظی یا جعل سازی کی گنجائش نہیں ہے اسی لئے بے شمار اہل علم نے اس حدیث سے دینی امور پر اجرت لینے کو جائز قرار دیا ہے چند حوالے ملاحظہ ہو۔
.
.
امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279) نے کہا:
« ورخص الشافعي للمعلم أن يأخذ على تعليم القرآن أجرا، ويرى له أن يشترط على ذلك، واحتج بهذا الحديث »
”امام شافعی رحمہ اللہ نے قرآن کی تعلیم پر اجرت لینے کوجائز قراردیا ہےاور اس بات کو بھی درست قراردیا ہے کہ معلم اجرت کی شرط رکھ سکتاہے ،ان باتوں کے لئے امام شافعی رحمہ اللہ نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے“ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 398]
.