کیا حضرت علی کا معاویہ رضی الله عنہما اور ان کے گروہ پر قنوت میں بدعا کرنا ثابت ہے ؟؟؟

You are currently viewing کیا حضرت علی کا معاویہ رضی الله عنہما اور ان کے گروہ پر قنوت میں بدعا کرنا ثابت ہے ؟؟؟

کیا حضرت علی کا معاویہ رضی الله عنہما اور ان کے گروہ پر قنوت میں بدعا کرنا ثابت ہے ؟؟؟

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه. 
حضرت عبد الرحمن بن معقل فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، انہوں نے اس میں دعائے قنوت پڑھی اور اس مں ں یہ کلمات کہے: اے اللہ! معاویہ اور اس کے گروہ کو سنبھال لے، اے اللہ! عمرو بن عاص اور اس کے گروہ کو سنبھال لے، اے اللہ! ابو اعور اور اس کے گروہ کو سنبھال لے، اے اللہ! عبد اللہ بن قیس اور اس کے گروہ کو سنبھال لے۔[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 317]

یہ روایت آج کل بہت پیش جارہی ہے ہماری نظر میں یہ روایت ضعیف ہے ۔
آگے ہم اس کی تفصیل پیش کررہے ہیں۔
.
علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت دو طرق سے مروی ہے:

① پہلاطریق : عبد الله بن معقل
② دوسرا طریق:عبد الرحمن بن معقل

پہلا طریق : عبداللہ بن معقل کی روایت

عبداللہ بن معقل سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:

أبو حصين عثمان بن عاصم
الحكم بن عتيبة
سلمة بن كهيل

تفصیل ملاحظہ ہو:

➊ أبو حصين عثمان بن عاصم کی روایت:

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا ابن بشار، قال: حدثنا عبد الرحمن، قال: حدثنا شعبة، عن أبي حصين، عن ابن معقل، قال: «قنت بنا رجلان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، علي وأبو موسى»[تهذيب الآثار 1/ 360 و اسنادہ صحیح ]

➋ الحكم بن عتيبة کی روایت:

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا:
حدثنا حميد بن مسعدة السامي، قال: حدثنا يزيد يعني ابن زريع، قال: حدثنا شعبة، عن الحكم بن عتيبة، عن عبد الله بن معقل، قال: «قنت بنا رجلان من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم علي، وأبو موسى»[تهذيب الآثار 1/ 359 واسنادہ صحیح ]

 ➌ سلمة بن كهيل کی روایت:

امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211) نے کہا:
عن يحيى، عن الثوري، عن سلمة بن كهيل، عن عبد الله بن معقل، أن عليا قنت في المغرب، فدعا على ناس وعلى أشياعهم، وقنت قبل الركوع[المصنف لعبد الرزاق الصنعاني، دار التأصيل: 3/ 74 واسنادہ صحیح]

یہ طریق صحیح و ثابت ہے ۔
اس طریق سے مروی تمام روایات میں سے کسی ایک بھی روایت میں ان لوگوں کا نام مذکور نہیں ہے جن پر علی رضی اللہ عنہ بددعا کررہے تھے ۔

 

دوسرا طریق: عبد الرحمن بن معقل

عبد الرحمن بن معقل سے درج ذیل لوگوں نے روایت کیا ہے:

سلمة بن كهيل
أبو الحسن عبيد بن الحسن
حصين بن عبد الرحمن السلمي

تفصیل ملاحظہ ہو

 ➊ سلمة بن كهيل کی روایت:

امام ابن المنذر رحمه الله (المتوفى319)نے کہا:
حدثنا علي بن الحسن قال: ثنا عبد الله عن سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن عبد الرحمن بن معقل أن علي بن أبي طالب «قنت في المغرب فدعا على أناس وعلى أشياعهم، وقنت بعد الركعة»[الأوسط لابن المنذر: 5/ 210 واسنادہ صحیح]

عبدالرحمن بن معقل سے سلمہ بن کھیل کی روایت میں کسی کے نام کی صراحت ثابت نہیں ہے۔

➋ أبو الحسن عبيد بن الحسن کی روایت :

امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310) نے کہا:
حدثنا ابن المثنى، قال: حدثنا أبو داود، قال: حدثنا شعبة، عن عبيد أبي الحسن، قال: سمعت ابن معقل، يقول: «صليت خلف علي رضي الله عنه فقنت»[تهذيب الآثار للطبري: 1/ 360 واخرجہ ایضا الطحاوی فی شرح معاني الآثار 1/ 251 من طریق ابی داؤد بہ واخرجہ ایضا البیہقی فی سننہ2/ 245 من طریق عبيد الله بن معاذ عن ابیہ عن شعبة نحوہ ]

تنبیہ:

یعقوب فسوی نے عبيد الله بن معاذ کے طریق سے اسی روایت کو نقل کیا تو معاویہ اور ابواعور کا نام ذکر کردیا [المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 135]
لیکن امام بیہقی کی سنن میں عبیداللہ بن معاذ کی طریق سے يحيى بن محمد الحنائي نے روایت کیا تو انہوں نے کسی کا نام ذکر نہیں کیا ہے ۔[السنن الكبرى للبيهقي، ط الهند: 2/ 245 ]
اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی عبیداللہ بن معاذ ہی طریق یہ روایت یوں نقل کی ہے:
معاذ بن معاذ، نا شعبة، عن عبيد أبي الحسن، عن عبد الله بن معقل قال: ” شهدت عليا قنت في صلاة الفجر بعد الركوع، ويدعو في قنوته على خمسة رهط[تنقيح التحقيق للذهبي: 1/ 246]
مزید یہ کہ امام ابوداؤد والے مذکورہ طریق میں بھی کسی کا نام مذکور نہیں ہے۔اس لئے یہی روایت محفوظ ہے ۔

خلاصہ یہ کہ عبداللہ بن معقل سے أبو الحسن عبيد بن الحسن کی روایت میں کسی کے نام کی صراحت ثابت نہیں ہے۔
اور أبو الحسن عبيد بن الحسن بالاجماع ثقہ ہیں بلکہ:
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463)نے کہا:
اجمعوا على أنه ثقة حجة[الاستغناء بحوالہ إكمال تهذيب الكمال لمغلطاي 9/ 84، تهذيب التهذيب لابن حجر، ط الهند: 7/ 62]

➌ حصين بن عبد الرحمن السلمي کی روایت:

ان سے درج ذیل تین لوگوں نے روایت کیا ہے:

(1) شعبة بن الحجاج
(2) شريك بن عبد الله
(3) هشيم بن بشير

تفصیل ملاحظہ ہو:

(1) شعبة بن الحجاج

أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
حدثنا أبو بكرة، قال: ثنا أبو داود، عن شعبة، قال: أخبرني حصين بن عبد الرحمن، قال: سمعت عبد الرحمن بن معقل، يقول: «صليت خلف علي رضي الله عنه المغرب فقنت ودعا»[شرح معاني الآثار 1/ 252 واسنادہ صحیح]

(2) شريك بن عبد الله

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حدثنا شريك ، عن حصين ، عن عبد الرحمن بن معقل ، قال صليت خلف علي المغرب ، فقنت[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 318 واسنادہ صحیح]

حصین سے روایت کرنے والے ان کے مذکورہ تلامذہ یہی روایت نقل کرتے ہیں مگر ان میں کوئی بھی کسی کا نام ذکر نہیں کرتا جس پر علی رضی اللہ عنہ بد دعاکرتے ہیں ۔

(3) هشيم بن بشير

لیکن حصین کے شاگرد ھشیم نے جب ان سے یہ روایت بیان کی تو معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کا نام ذکر کردیا !
ملاحظہ ہو:

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235) نے کہا:
حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : حدثنا عبد الرحمن بن معقل ، قال : صليت مع علي صلاة الغداة ، قال : فقنت ، فقال في قنوته : اللهم عليك بمعاوية وأشياعه وعمرو بن العاص وأشياعه ، وأبي الأعور السلمي ، وعبد الله بن قيس وأشياعه.[مصنف ابن أبي شيبة. سلفية: 2/ 317 ]

معلوم ہوا کہ ھشیم کی روایت ایک جماعت کے خلاف ہے۔
بلکہ حصين بن عبد الرحمن السلمي کے شیخ عبد الرحمن بن معقل کے دو شاگرد أبو الحسن عبيد بن الحسن اور سلمہ بن کھیل کی روایات کے بھی خلاف ہے۔
مزید یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کی روایت کا جو پہلا طریق عبد الله بن معقل کا ہے اس کے بھی خلاف ہے۔

لہٰذا اس قدر مخالفتوں کے بعد تنہااس سند کی وجہ سے اس روایت کو صحیح قرارنہیں دیا جاسکتا۔اس لئے راجح بات ان شاء اللہ یہی ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ والی جس روایت میں معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کے نام کی صراحت ہے وہ شاذ یعنی ضعیف ہے۔

اور محفوظ روایت صرف اتنی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قنوت میں کچھ لوگوں پر بددعا کرتے تھے۔لیکن یہ لوگ کون تھے یہ صحیح و محفوظ روایت سے ثابت نہیں ہے ۔

واضح رہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے مخالف صرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کا گروہ ہی نہیں تھا بلکہ علی رضی اللہ عنہ کے اور بھی مخالفین تھے جن سے علی رضی اللہ عنہ کی لڑائی بھی ہوئی اس لئے اس بات کا بھی احتمال ہے کہ یہ بد د عاء ان لوگوں کے لئے کی گئی ہو۔
بہرحال ہم بغیر کسی پختہ ثبوت کے یہ نہیں مان سکتے کہ علی رضی اللہ عنہ ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر بددعا کرتے تھے۔

(تحریر:کفایت اللہ سنابلی)

Leave a Reply