☆☆ *دسواں پارہ* ☆☆

You are currently viewing ☆☆ *دسواں پارہ* ☆☆

☆☆ *دسواں پارہ* ☆☆

🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *دسواں پارہ* ☆☆
1- اس پارے میں جنگ بدر کی جائے وقوع کی نشاندہی اور آپ ﷺ کے خواب کے متعلق گفتگو جاری ہے۔اور کس طرح اللہ تعالی نے اس خواب کو مزید سکون و اطمینان کا سبب بنا دیا۔
2- ﴿يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِذَا لَقِيتُمۡ فِئَةٗ فَٱثۡبُتُواْ وَٱذۡكُرُواْ ٱللَّهَ كَثِيرٗا لَّعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُونَ٤٥ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَٰزَعُواْ فَتَفۡشَلُواْ وَتَذۡهَبَ رِيحُكُمۡۖ وَٱصۡبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ٤٦ وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَٰرِهِم بَطَرٗا وَرِئَآءَ ٱلنَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ بِمَا يَعۡمَلُونَ مُحِيطٞ٤٧﴾ (الانفال 45-47) ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے چلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر لینے والا ہے۔
اس آیت کریمہ کے اندر نصرت و کامیابی کے حصول اور اسے ہمیشہ برقرار رکھنے کے متعلق نصیحت سے بھرپور چھ قسم کی ہدایات کا ذکر ہے(1)۔ نصرت و مدد کی راہ میں رکاوٹ بننے والے شیطان کے ہتھکنڈے اور سازشوں کا بیان ہے۔ نیز منافقوں کی بزدلی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔
3- سورہ انفال کے اختتام پر ایک سب سے مضبوط رشتے کا ذکر ہے جو تمام مسلمانوں کو باہم متحد کرتا ہے اور وہ دنیا کا کوئی اور رشتہ نہیں بلکہ وہ اخوت کا رشتہ ہے جو دین واحد کی نصرت و حمایت کے لیے باہم مشترک ہے۔
4- سورہ توبہ کے آغاز میں اللہ کے رسول اور مشرکین کے مابین ہونے والے عہد و معاہدے کی متعینہ مدت اور اس مدت کے ختم ہونے کے بعد جو جنگ یا امن کی صورتحال ہوگی اس کا تذکرہ ہے۔ اور اس میں ایک اہم پیغام ہے کہ دین اسلام کافروں کے ساتھ ہونے والے عہد و پیمان کا محافظ اور پاسدار ہے۔
5- سورہ توبہ کے شروع میں کچھ احکام و مسائل کا ذکر ہے جیسے عہد و پیمان کو پورا کرنے اور اسے توڑنے کے احکام و مسائل، مشرکین کے لئے مسجد حرام میں داخل ہونے کی ممانعت اور ان سے محبت و دوستی کے حرام ہونے کا بیان ہے۔
6- طاقت و قوت ہونے کی صورت میں اہل کتاب سے جہاد کا حکم ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر جزیہ دیں۔ نیز اہل کتاب کے بعض باطل اور غلط عقائد کا بھی ذکر ہے۔
7- مسجدوں کو آباد کرنے کا ذکر اسی سورت میں کیا گیا ہے اور اسے اللہ اور یوم آخرت پر ایمان سے مربوط کیا گیا ہے۔ اس سے اخلاص کی اہمیت و ضرورت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اور یہ شرف و اعزاز منافق كو حاصل نہیں۔ اس لیے کہ اس کے اندر مسجد آباد کرنے کی حسی اور معنوی دونوں صلاحیت اور اہلیت نہیں ہوتی۔
8- اس پارے میں ہجری مہینوں کے مطابق تاریخ لکھنے کی اصل دلیل کا ذکر ہے۔ رجب، ذو القعدہ ذوالحجہ اور محرم ان مہینوں کی حرمت کا بیان ہے۔ شرعی سال کی ترتیب و تحدید ہے۔ نیز حرمت والے مہینوں کے متعلق کفار کی حیلہ بازی کی عادت کو غلط قرار دیا گیا ہے۔
9- اگر مسلم حکمراں اللہ کے راستے میں نکلنے کا اعلان کرے تو اس کے اعلان پر مسلمانوں کو لبیک کہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔
10- اسى سورہ توبہ کے اندر زکوۃ کے آٹھ مصارف کی تعیین کی گئی ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿ إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱلۡعَٰمِلِينَ عَلَيۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَٰرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٞ٦٠﴾ (التوبۃ60) ترجمہ: صدقے صرف فقیروں کے لئے ہیں اور مسکینوں کے لئے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لئے اور ان کے لئے جن کے دل پرچائے جاتے ہوں اور گردن چھڑانے میں اور قرضداروں کے لئے اور اللہ کی راہ میں اور راہرو مسافروں کے لئے فرض ہے اللہ کی طرف سے ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
شاید اس کا راز یہ ہے کہ اس سورت میں مال کے موضوع پر زیادہ گفتگو کی گئی ہے نیز کسی بھی طریقے سے مال حاصل کرنے کی منافقین کی حرص و طمع اور مال میں حقوق اللہ کے تئیں ان کی غفلت و لاپرواہی کا ذکر ہے۔ جیسا کہ بہت سارے (اہل کتاب کے) عالموں اور درویشوں کا حال تھا کہ وہ صرف یہی نہیں کہ اپنے مال کی زکوۃ نہیں دیتے تھے بلکہ اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اپنا مال خرچ کرتے تھے۔
11- یہاں ان سست و لاپرواہ منافقوں، بہانہ بنانے والوں اور بغیر کسی عذر کے جہاد سے پیچھے رہ جانے کی اجازت مانگنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔
12- اس پارے میں منافقین کی نشانیاں اور ان کے لیے وعید الہی، اسی طرح مومنوں کے اوصاف اور آخرت میں ان کے اجر و ثواب کا ذکر ہے۔ چنانچہ آپ بھی اپنے قلب و جوارح کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ آپ منافق و مومن کس گروہ سے زیادہ قریب ہیں۔
13- نبی اکرم ﷺ کو جہاد میں منافقوں سے مدد نہ لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے تئیں ان سے سوائے نقصان اور مایوسی کے کوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی۔ پھر اس کے بعد آپ ﷺ کو ان کے لیے استغفار کرنے اور ان كي نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔
14- ﴿ٱلَّذِينَ يَلۡمِزُونَ ٱلۡمُطَّوِّعِينَ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ فِي ٱلصَّدَقَٰتِ وَٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُونَ مِنۡهُمۡ سَخِرَ ٱللَّهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ أَلِيمٌ٧٩﴾(التوبۃ79) ترجمہ: جو لوگ ان مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں جو دل کھول کر خیرات کرتے ہیں اور ان لوگوں پر جنہیں سوائے اپنی محنت مزدوری کے اور کچھ میسرہی نہیں ، پس یہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں ، اللہ بھی ان سے تمسخر کرتا ہے انہی کے لئے دردناک عذاب ہے۔
اس آیت کے اندر منافقوں کی ایک بہت ہی گھٹیا عادت اور بدترین خصلت كا بيان ہے۔ اور وہ ہے صدقہ و خیرات کرنے والوں کا مذاق اُڑانا یعنی نہ وہ خود خرچ کرتے اور نہ خرچ کرنے والے ان کے طنز و تعریض سے محفوظ رہتے۔ لہذا آج ایک مومن کو اس سے تسلی حاصل کرنی چاہیے کیونکہ منافقوں کے طنز و تعریض سے وہ صحابہ کرام بھی محفوظ نہ رہے جو انبیائے کرام کے بعد کائنات کے سب سے افضل لوگ تھے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•
حاشیہ:
(1) چھ ہدایات:
1- دشمن سے مڈ بھیڑ کے وقت ثابت قدم رہو۔
2- بکثرت اللہ کا ذکر کرو۔
3- اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
4- آپس میں اختلاف نہ کرو۔
5- صبر کرو۔
6- اترانے اور خود نمائی کرنے والوں کے نقش قدم پر نہ چلو۔

This Post Has One Comment

Leave a Reply