☆☆ *دوسرا پارہ* ☆☆

You are currently viewing ☆☆ *دوسرا پارہ* ☆☆

☆☆ *دوسرا پارہ* ☆☆

*قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی

☆☆ *دوسرا پارہ* ☆☆

① اس پارے میں دوبارہ یہودیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ نیز خانہ کعبہ کو قبلہ بنا نے پر ان کا اعتراض، اس اعتراض کا جواب، اس امت کی فضیلت اور تمام امتوں پر اس امت کی افضلیت کو بیان کیا گیا ہے۔
② جہتوں کو قبلہ بنانے سے کہیں زیادہ تزکیہ نفس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگرچہ دونوں اہم ہیں۔
③ اس پارے میں صبر کی بڑی واضح نصیحت اور تلقین کی گئی ہے۔ صبر کے معاون وسائل اور اس کے ثمرات و نتائج کو بیان کیا گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ محض ان چند اہم آیات کے اندر ہیں:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ 153 وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ 154 وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ 155 الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 156 أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ 157﴾ (البقرۃ153-157)
ترجمہ: اے ایمان والو !صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو ، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی راہ کے شہیدوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ، لیکن تم نہیں سمجھتے۔ اور ہم کسی نہ کسی طرح تمہاری آزمائش ضرور کریں گے ، دشمن کے ڈر سے ، بھوک پیاس سے ، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ جنہیں جب کبھی کوئی مصیبت آتی ہے تو کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم تو خود اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ ان پر ان کے رب تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔
④ اس میں صوم کی فرضیت اور صوم کے بہت سارے احکام کا تفصیلی ذکر ہے۔ قرآن میں صرف یہی ایک جگہ ہے جہاں صوم کے مسائل کا تذکرہ ہوا ہے۔ اس لیے اسے خوب غور سے پڑھیں۔
⑤ اس پارے میں حج کے بعض احکام کا بیان ہے۔ (واضح رہے )یہاں سورہ بقرہ میں حج کے صرف عملی احکام کو بطور خاص بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سورہ حج میں حج کے قلبی اور ایمانی اعمال پر زور دیا گیا ہے۔
⑥ اس پارے میں بہت سےعائلی احکام و مسائل جیسے نکاح، طلاق اور رضاعت کے متعلق تفصیلی بیان ہے۔ یہ تمام احکام و مسائل اللہ کے تقوی اور مراقبہ سے مربوط ہیں۔ اس میں یہ واضح پیغام ہے کہ دین اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں پر توجہ دی ہے اور ہمارے تمام اعمال و تصرفات شریعت کےتابع ہیں۔ ایسا نہیں جیسا کہ بعض منافقین جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام صرف عبادات کے مسائل کو منظم کرتا ہے۔
⑦ عائلی احکام ومسائل كو یوم آخرت پر ایمان سے مربوط کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔ کیونکہ ان احکام کو بجا لانے میں یہ ایمان بڑا معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔
⑧ جالوت کا قصہ جس کا تذکرہ اس پارے کے اخیر میں ہوا ہے اس میں صبر کے متعلق بڑی اہم نصیحت ہے۔ نیز اس حقیقت کا بیان ہے کہ صرف کثرتِ تعداد کے سبب دشمنوں پر غلبہ حاصل نہیں ہوتا۔
⑨ اس قصے میں ایک نصیحت یہ بھی ہے کہ ایک داعی الی اللہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے نفس کو صبر و ثبات قدمی کا خوگر اور عادی بنائے یہاں تک کہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے۔ اور یہ بات ذہن میں رکھے کہ منزل مقصود آنے سے پہلے بیچ راستے ہی میں بہت سے معاونين آپ کا ساتھ چھوڑ سکتے ہیں۔
⑩ – اس پارے کى آخری سے پہلی آیت کے اندر اس کائنات میں چلنے والے اللہ کے ایک طے شدہ نظام کا بیان ہے۔ وہ آیت یہ ہے:
﴿وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ﴾ (البقرة 251)
ترجمہ: اگر اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالیٰ دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔

This Post Has One Comment

Leave a Reply