پچھلاحصہ
تیسرا طريق: مطرف بن عبد الله، عن عثمان بن أبي العاص الثقفي
امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نے کہا:
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، أخبرنا سعيد الجريري، عن أبي العلاء، عن مطرف بن عبد الله، عن عثمان بن أبي العاص، قال: قلت: وقال موسى في موضع آخر إن عثمان بن أبي العاص قال – يا رسول الله اجعلني إمام قومي، قال: «أنت إمامهم واقتد بأضعفهم واتخذ مؤذنا لا يأخذ على أذانه أجرا»
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ مجھے میری قوم کا امام مقرر فرما دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے امام ہو تو تم ان کے کمزور ترین لوگوں کی رعایت کرنا، اور ایسا مؤذن مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے“ ۔[سنن أبي داود رقم 531 وإسناده ضعيف ومن طريق أبي داؤد أخرجه ابن حزم في ”المحلي“ (3/ 15) والبغوي في ”شرح السنة“ (رقم 417). وأخرجه عفان (أحاديث عفان 236 ترقیم الشاملة) ترقيم الشاملة وأخرجه أيضا أحمد في مسنده (29/ 435) ومن طريقه أخرجه ابن الجوزي في ”التحقيق“ (رقم 1575) من طريق حسن بن موسى الأشيب ،وأخرجه أيضا ابن قانع في ”معجم الصحابه“ ( 2/ 256) من طريق أبي سلمة ،وأخرجه أيضا ابن المنذر في ”الأوسط“ (رقم 1238) و الطحاوي في شرح مشكل الآثار (رقم6000 ) من طريق يحيى بن حسان التنيسي، وأخرجه أيضا الجورقاني في الأباطيل( رقم531) من طريق عبيد الله بن محمد العيشي،وأخرجه أيضا في ”مسنده“ (رقم214) من طريق سليمان بن حرب،وأخرجه أيضا الطبراني في ”معجمه الكبير“ (رقم8365) من طريق حفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال ،وأخرجه أيضا ابن خزيمة في ”صحيحة“ (1/ 221) من طريق هشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم ،كلهم (عفان و حسن بن موسى الأشيب و أبو سلمة و يحيى بن حسان التنيسي و عبيد الله بن محمد العيشي و سليمان بن حرب وحفص بن عمر الضرير وحجاج بن المنهال وهشام بن الوليد و محمد بن الفضل عارم) من طريق حماد بن سلمة به]
.
یہ روایت ضعيف ہے ۔
امام جورقاني رحمه الله (المتوفى543) اس روایت کے تمام طرق کے پیش نظر اس پر نقد کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
”رواه جماعة كثيرة عن عثمان ولم يقل منهم أحد: واتخذ [مؤذنا] لا يأخذ على أذانه أجرا، إلا ما تفرد به حماد عن الجريري“
”اس حدیث کو عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی یہ الفاظ نہیں بیان کئے کہ : ”ایسا مؤذن رکھیں جو اجرت نہ لیتا ہو“ ، یہ الفاظ صرف حماد بن سلمہ نے جریری کے طریق سے بیان کیا ہے“ [الأباطيل والمناكير للجورقاني: 2/ 171 ما بين القوسين من الناقل]
.
یادرہے ”حماد بن سلمہ“ نے کئی روایات کو بیان کرتے ہوئے سند ومتن میں غلطیاں کی ہیں چنانچہ:
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) نے کہا:
”هو ثقة صدوق يغلط“ ، ”یہ ثقہ وصدوق ہیں اور غلطی کرتے ہیں“ [الكاشف للذهبي ت عوامة: 1/ 349]
بلکہ بعض نے تویہاں تک کہہ دیا ہے کہ یہ آخری عمر میں سوئے حفظ کے شکار ہوگئے تھے لیکن علی الاطلاق ایسا کہنا درست نہیں ہے ۔
البتہ جس روایت میں یہ ثقات کی مخالفت کریں وہاں ان کی روایت قابل حجت نہ ہوگی جیساکہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وإذا كان الأمر على هذا فالاحتياط لمن راقب الله تعالى أن لا يحتج بما يجد في أحاديثه مما يخالف الثقات»
”جب حماد بن سلمہ کا معاملہ ایسا ہے تو اللہ والوں کے لئے احتیاط اسی میں ہے کہ یہ جن روایات کو بیان کرنے میں ثقات کی مخالفت کریں ان میں ان کو حجت نہ مانا جائے“ [الخلافيات للبیہقی : 2/ 50]
نیز دیکھیں: ہماری کتاب احکام طلاق (ص)
تنبیہ :
بعض لوگوں نے امام جورقانی کی اس جرح کا یہ جواب دیا ہے کہ حماد بن سلمہ کی متابعت ”حماد بن زید“ نے بھی کردی ہے جیساکہ مسند احمد میں ہے ۔[مسند أحمد 26/ 201]
جوابا عرض ہے کہ:
امام احمد رحمہ اللہ نے اسے عفان کے واسطے سے نقل کیا ہے اور عفان کے دیگر تمام شاگردوں نے بلکہ دوسری جگہ خود امام احمد رحمہ اللہ نے بھی اس روایت میں عفان کے استاذ کی جگہ ”حماد بن سلمہ“ ہی کانام لیا ہے حوالے ملاحظہ ہوں:
➊ احمد بن حنبل حدثنا عفان، قال: حدثنا حماد بن سلمة (مسند أحمد رقم16271 )
➋ أحمد بن سليمان، قال: حدثنا عفان، قال:حدثنا حماد بن سلمة(السنن الكبرى للنسائي 2/ 250)
➌ محمد بن إسحاق الصغاني ثنا عفان ثنا حماد بن سلمة( السنن الكبرى للبيهقي 1/ 631 )
نیز ”احادیث عفان“ میں بھی یہ حدیث صرف حماد بن سلمہ ہی کے طریق سے دیکھیں :[ أحاديث عفان 236]
علاوہ بریں عفان کے علاوہ تمام رواۃ نے اسے بالاتفاق حماد بن سلمہ سے ہی روایت کیا ہے ۔ حوالے ملاحظہ ہوں:
➊ موسى بن إسماعيل ثنا حماد بن سلمة (المحلى لابن حزم، ط بيروت: 3/ 15 )
➋ حسن بن موسى، حدثنا حماد بن سلمة ( مسند أحمد 29/ 435 )
➌ يحيى بن حسان، حدثنا حماد بن سلمة (شرح مشكل الآثار 15/ 263 )
➍ سليمان بن حرب ثنا حماد بن سلمة ( مسند السراج ص100 )
➎ حجاج بن المنهال، قالوا: ثنا حماد بن سلمة (المعجم الكبير رقم 8365)
➏ ابو عمر الضرير ، ثنا حماد بن سلمة (المعجم الكبير رقم 8365)
ان حقائق سے روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتا ہے کہ یہ طریق حماد بن سلمہ ہی کا ہے ۔
تاہم اگرفرض کرلیں کہ اس مقام پر حماد بن زید ہی ہے اور اس نے حماد بن سلمہ کی متابعت کردی ہے تو بھی سند کے اوپری طبقات میں بھی علتیں موجود ہیں چنانچہ:
.
”مطرف بن عبد الله“ سے اسی روایت کو جب ان کے دوسرے شاگرد ”سعید بن ابی الھند“ نے روایت کیا تو اس میں اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی چنانچہ:
امام حمیدی رحمہ اللہ (المتوفی219) نے کہا:
ثنا سفيان قال: ثنا محمد بن إسحاق، سمعه من سعيد بن أبي هند، سمعه من مطرف بن عبد الله بن الشخير، قال: سمعت عثمان بن أبي العاص الثقفي، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أم قومك واقدرهم بأضعفهم، فإن منهم الكبير والضعيف وذا الحاجة»
مطرف بن عبداللہ بن شخیر کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عثمان! نماز ہلکی پڑھنا، اور لوگوں میں جو سب سے زیادہ کمزور ہوں ان کی رعایت کرنا، اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے، ناتواں اور ضرورت مند سبھی قسم کے لوگ ہوتے ہیں“ ۔[مسند الحميدي رقم929 وإسناده صحيح وأخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه (رقم 8891 ) من طريق إسماعيل بن إبراهيم ومن طريقه أخرجه ابن ماجه في سننه (رقم 987 ) من طريق إسماعيل ابن علية، وأخرجه أيضا أحمد في مسنده (رقم16273) من طريق حماد بن زيد،وأخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة (رقم 4936) من طريقه يزيد بن هارون ،وأخرجه أيضا ابن المنذر في الأوسط(رقم2030) من طريق يزيد بن زريع ،وأخرجه أيضا ابن خزيمه في صحيحه (رقم1608 ) من طريق سلمة بن الفضل وابن عدي و سفيان ، كلهم (اسماعيل بن عليلة وحماد بن زيد ويزيد بن هارون ويزيد بن زريع ) عن ابن اسحاق به ، وصرح ابن اسحاق بالسماع عند ابن المنذر] .
.
نیز ”عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ“ سے ان كے شاگرد ”مطرف بن عبد الله“ کے علاوه دیگر شاگردوں نے یہ روایت بیان کی تو انہوں نے بھی اذان پر اجرت والی بات ذکر نہ کی ۔
موسى بن طلحة عن عثمان بن أبي العاص کی روایت صحیح مسلم (رقم 468)کے حوالے سے گزرچکی ہے ۔
دیگر شاگردوں کی روایات اگلے طرق میں ملاحظہ ہوں:
چوتھا طریق : سعيد بن المسيب عن عثمان بن أبي العاص
امام مسلم رحمہ الله (المتوفى261) نے کہا:
حدثنا محمد بن المثنى، وابن بشار، قالا: حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، قال: سمعت سعيد بن المسيب، قال: حدث عثمان بن أبي العاص، قال: «آخر ما عهد إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أممت قوما، فأخف بهم الصلاة»
سعید بن مسیب نے کہا: حضرت عثمان بن ابی عاص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری بات جو میرے ذمے لگائی یہ تھی: ”جب تم لوگوں کی امامت کراؤ تو انہیں نماز ہلکی پڑھاؤ۔“ [صحيح مسلم رقم 468 ومن طريق جعفر أخرجه أحمد في ”مسنده“ (رقم 16277) ،وأخرجه البيهقي في سننه(رقم 5269 ) من طريق أبي داؤد ،وأخرجه أيضا أبونعيم في معرفة الصحابة رقم 4937 من طريق بشر بن عمروسليمان بن حرب وأبي الوليد ، كلهم (أبوداود وبشر بن عمروسليمان بن حرب وأبو الوليد) من طريق شعبة به]
یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے اور اس میں اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
پانچواں طریق : حكيم بن حكيم عن عثمان بن أبي العاص
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا يحيى بن أيوب العلاف المصري، ثنا سعيد بن أبي مريم، ثنا محمد بن جعفر، عن سهيل بن أبي صالح، عن حكيم بن حكيم بن عباد بن حنيف، عن عثمان بن أبي العاص، قال: قدمت في وفد ثقيف حين وفدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلبسنا حللنا بباب النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: من يمسك لنا رواحلنا، وكل القوم أحب الدخول على النبي صلى الله عليه وسلم وكره التخلف عنه، قال عثمان: وكنت أصغر القوم، فقلت: إن شئتم أمسكت لكم على أن عليكم عهد الله لتمسكن لي إذا خرجتم، قالوا: فذلك لك، فدخلوا عليه ثم خرجوا فقالوا: انطلق بنا، قلت: أين؟ فقالوا: إلى أهلك، فقلت: ضربت من أهلي حتى إذا حللت بباب النبي صلى الله عليه وسلم أرجع ولا أدخل عليه، وقد أعطيتموني من العهد ما قد علمتم؟ قالوا: فأعجل فإنا قد كفيناك المسألة، لم ندع شيئا إلا سألناه عنه، فدخلت فقلت: يا رسول الله، ادع الله أن يفقهني في الدين ويعلمني، قال: «ماذا قلت؟» فأعدت عليه القول، فقال: «لقد سألتني شيئا ما سألني عنه أحد من أصحابك، اذهب فأنت أمير عليهم وعلى من تقدم عليه من قومك، وأم الناس بأضعفهم» فخرجت حتى قدمت عليه مرة أخرى فقلت: يا رسول الله، اشتكيت بعدك، فقال: ضع يدك اليمنى على المكان الذي تشتكي، وقل: أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد سبع مرات ففعلت فشفاني الله عز وجل
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف کے لوگ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو میں بھی ان میں تھا۔ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اپنے کپڑے پہنے۔ وفد کے لوگوں نے کہا: کون ہمارے جانوروں کو سنبھالے گا؟ سب لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنا چاہتے تھے اور کوئی پیچھے رہنا نہیں چاہتا تھا۔ عثمان کہتے ہیں: میں وفد میں سب سے کم عمر تھا، تو میں نے کہا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے جانور سنبھال لوں، بشرطیکہ تم اللہ کا عہد دو کہ جب تم باہر آؤ گے تو میرے جانور سنبھالو گے۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے، آپ کی بات منظور ہے۔ چنانچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے اندر گئے اور پھر باہر آئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: چلو ہمارے ساتھ۔ میں نے پوچھا: کہاں؟ انہوں نے کہا: اپنے گھر والوں کے پاس۔ میں نے کہا: میں اپنے گھر والوں سے اتنی دور تک آیا ہوں اور اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر پہنچ کر واپس چلا جاؤں اور ان سے نہ ملوں؟ تم نے مجھے جو عہد دیا تھا، وہ تم جانتے ہو! انہوں نے کہا: ٹھیک ہے لیکن جلدی کرنا کیونکہ ہم نے تمہاری جگہ سب کچھ پوچھ لیا ہے کوئی سوال نہیں چھوڑا جو ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کیا ہو۔پھر میں اندر گیا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے دین کی سمجھ عطا فرمائے اور مجھے دین کا علم سکھائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کیا کہا؟ میں نے اپنی بات دہرائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ سے ایسی چیز مانگی جو میرے کسی اور ساتھی نے نہیں مانگی۔ جاؤ، تم اپنے وفد اور جن لوگوں کے پاس تم جارہے ہو ان کے امیر ہو، اور لوگوں کی امامت کرتے ہوئے کمزوروں کی رعایت کرنا۔پھرمیں واپس آیا اور کچھ عرصے بعد دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے بعد مجھے بیماری ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا دایاں ہاتھ اس جگہ پر رکھو جہاں تکلیف ہے اور سات مرتبہ یہ دعا پڑھو: أعوذ بعزة الله وقدرته من شر ما أجد (میں اللہ کی عزت اور اس کی قدرت کے ساتھ اس شر سے پناہ مانگتا ہوں جو مجھے محسوس ہو رہا ہے)۔ میں نے ایسا ہی کیا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا فرمائی۔
[المعجم الكبير للطبراني رقم8356 وإسناده حسن وأخرجه أيضا السراج في ”مسنده“ (رقم221) من طريق محمد بن جعفر به مختصرا]
یہ حسن روایت ہے اس میں بھی اذان کی اجرت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
.
مذکورہ طرق کے علاوہ اس حدیث کے اور بھی طرق ہیں اوران میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں لیکن ہماری نظر میں وہ سب کے سب ضعیف وغیر ثابت ہیں اور وہ ہیں:
چھٹا طریق :- داود بن أبي عاصم الثقفي، عن عثمان بن أبي العاص (مسند أحمد 29/ 440 وقال المعلقون عليه : إسناده قوي )
ساتواں طریق :- عبد الله بن الحكم عن عثمان بن أبي العاص (مسند أحمد 29/ 441)
آٹھواں طریق:- نعمان بن سالم، عن عثمان بن أبي العاص (معجم الصحابة لابن قانع 2/ 256)
نواں طریق :- المغيرة بن شعبة عن عثمان بن أبي العاص ( المعجم الكبير للطبراني 9/ 44 )
دسواں طریق :- اشیاخ بنی ثقیف عن عثمان بن أبي العاص (مسند أحمد 26/ 203 وقال المعلقون عليه:حديث صحيح، ولا يضر جهالة الرواة الذين حدث عنهم النعمان بن سالم الثقفي، لأنهم جمع)
ان طرق میں سے بھی کسی ایک میں اذان پر اجرت والی بات مذکور نہیں ہے ، لیکن چونکہ ہماری نظر میں یہ سارے طرق ضعیف ہیں اس لئے ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ۔
ایک شاہد کا جائزہ
امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حدثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني محمد بن عبد الرحيم البرقي، ثنا شبابة بن سوار، ثنا المغيرة بن مسلم، عن الوليد بن مسلم، عن سعيد القطيعي، عن المغيرة بن شعبة، قال: سألت النبي صلى الله عليه وسلم أن يجعلني إمام قومي فقال: «صل صلاة أضعف القوم ، ولا تتخذ مؤذنا يأخذ على أذانه أجرا»
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ مجھے میری قوم کا امام بنادیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : ”تم انہیں ان کے کمزورں کی رعایت کرتے ہوئے نماز پڑھانا اور اور ایسا مؤذن مت رکھنا جو اپنی اذان پراجرت لیتا ہو“
[ المعجم الكبير للطبراني 20/ 434 وإسناده ضعيف جدا وأخرجه البخاري في ”التاريخ“ (3/ 486 )من طريق محمد أبي يحيي عن شبابة به ولم يذكر في الإسناد الوليد بن مسلم]
.
یہ روایت درج علتوں کی بنا پر سخت ضعیف ہے:
① اولا:
سعید بن طھمان کا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ہے۔
کسی بھی محدث نے سعید بن طہمان کے اساتذہ میں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا تذکرہ نہیں کیا ہے ۔
امام ابو حاتم الرازي رحمہ اللہ الله (المتوفى277) نے کہا:
”يروي عن أنس، لا يذكر سماعا، ولا رؤية“
”یہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے لیکن نہ تو ان سے سماع کا ذکر کرتا ہے نہ رؤیت کا“ [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، ت المعلمي: 4/ 35]
.
غور کیجئے کہ جب ان کا سماع انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی ثابت نہیں ہے جن کی وفات 93 ہجری میں ہوئی ہے۔[تهذيب الكمال للمزي: 3/ 377]
تو پھرمزید چالیس سال سے بھی زیادہ پیچھے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ان کا سماع کیسے ثابت ہوسکتا ہے جن کی وفات 50 ہجری میں ہوئی ہے [تاريخ بغداد، مطبعة السعادة: 1/ 191]
② ثانیا:
طبرانی کی روایت میں مغیرہ بن مسلم اور سعيد القطيعي کے درمیان ولید بن مسلم کا اضافہ ہے اور انہوں نے آگے سند کے تمام طبقات میں سماع کی صراحت ذکر نہیں کی ہے جبکہ یہ بکثرت تدلیس و تسویہ کرنے والے ہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) نے ان کے بارے میں کہا:
« كثير التدليس والتسوية » ، ”یہ بکثرت تدلیس اور تسویہ کرنے والے ہیں“ [تقريب التهذيب لابن حجر: رقم7456]
اور یہ سند سے کذابین اور وضاعین کو ساقط کرتے تھے اس لئے ان کے عنعنہ والی روایت سخت ضعیف شمار ہوگی خواہ عنعنہ کسی بھی طبقہ میں ہو ۔
ترمذی (رقم3570) کی روایت کے تمام رجال بخاری ومسلم کے رجال ہیں اور سند میں علت صرف ولید بن مسلم کا عنعنہ ہی لیکن محدثین نے موضوع ومن گھڑت قرار دیا ہے ۔
علامه الباني رحمه الله نے اسے موضوع کہا ہے، اور اس کاسبب وليد کے تسويه کوقراردياہے [الضعيفة:7 387،تحت الرقم3374]
حافظ ابن حجر رحمه الله نے بھی اس روايت کوموضوع کہا ہے ( لسان الميزان:205) ، اوروليدبن مسلم کي تدليس تسويه کو علت قرارديا ہے [ النکت الظراف:915]
③ ثالثا:
روایت میں امامت کا متن دسیوں طرق سے مروی ہے جن میں بہت سارے طرق صحیح ہیں ان تمام طرق میں رواۃ کا اتفاق ہے کہ امامت کی یہ بات عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے کی تھی۔
لہٰذا ان تمام طرق کے برخلاف اس روایت میں اس بات کو دوسرے صحابی کے حوالے ذکر کرنا یہ بھی دلیل ہے کہ یہ روایت باطل اور کالعدم ہے۔
خلاصہ کلام
زیر بحث حدیث کے کل دس طرق ملتے ہیں جن میں چھ طرق (پہلا اور چھٹا تا دسواں ) سرے سے ضعیف وغیر ثابت ہیں ۔
باقی بچے چار طرق (دوسرا تا پانچواں) تو ان میں دو طرق (چوتھا اور پانچواں) میں اذان پر اجرت والی بات کا ذکر ہی نہیں ہے ۔
باقی بچے دو طرق (دوسرا اور تیسرا) تو ان میں سے دوسرے یعنی موسى بن طلحة والے طریق میں اذان پر اجرت والی بات شاذ ہے اور اصل اور ثابت روایت میں یہ بات مذکور ہی نہیں ہے اسی لئے امام مسلم نے اپنی صحیح میں جب اس طریق سے روایت درج کی تو اس میں اذان پر اجرت والےالفاظ ذکر نہیں کئے۔
اور باقی بچا تیسرا یعنی مطرف والا طریق تو اس میں بھی اذان پر اجرت والے الفاظ ثابت نہیں ہیں کیونکہ حماد سے اوپر طبقات میں مخالفت ہے جیسا کہ تفصیل گزچکی ہے ۔ اسی لئے امام جورقانی رحمہ اللہ نے حماد کے بیان کردہ اضافہ کو ضعیف قرار دیا ہے کما مضی ۔