بھینس کی قربانی کے عدم جواز پر اہل علم کے فتاوی

You are currently viewing بھینس کی قربانی کے عدم جواز پر اہل علم کے فتاوی

بھینس کی قربانی کے عدم جواز پر اہل علم کے فتاوی

.
شیخ عبد المنان عبد الحنان سلفی

آپ لکھتے ہیں:
بھینس کی قربانی ؟
بھینس کی قربانی کا مسئلہ مختلف فیہ ہے تاہم یہ بات قطعی ہے کہ کسی بھی نص میں بھینس کی قربانی کا ذکر وارد نہیں، البتہ جن علماء نے بھینس کی قربانی جائز قرار دی ہے انہوں نے اسے گائے کی ایک قسم قرار دیا ہے مگر یہ درست نہیں، اس لئے کہ گائے اور بھینس دونوں کے رنگ، روپ، مزاج اور دودھ کی تاثیر اور دوسری چیزوں میں بڑا نمایاں فرق پایا جاتا ہے۔ جن لوگوں نے بھینس کی قربانی کو درست نہیں مانا ہے ان کی دلیل
یہ ہے کہ بہیمۃ الأنعام کا اطلاق بھینس پر نہیں ہوتا، اس لئے اس کا کھانا تو جائز ہے مگر اس کی قربانی مشروع نہیں۔ اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ بھینس کی قربانی سے احتراز کیا جائے اور اگر استطاعت ہو تو بکرا، بکری، بھیڑ، بھیڑی یا اونٹ ہی کی قربانی کی جائے۔
شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر بحث کرنے کے بعد لکھا ہے کہ:
« والأحوط عندي أن يقتصر الرجل في الأضحية على ما ثبت بالسنة الصحيحة عملاً وقولاً وتقريراً، ولا يلتفت إلى ما لم ينقل عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا الصحابة والتابعين – رضي الله عنهم »
”یعنی میرے نزدیک زیادہ احتیاط اسی میں ہے کہ آدمی صرف ان جانوروں کی قربانی پر ا کتفا کرے جن کا ثبوت صحیح حدیثوں سے قولاً، فعلاً اور تقریراً ہے، اور ایسے جانوروں کی قربانی کا ارادہ نہ کرے جن کی قربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول نہیں ہے۔“ ( مرعاة المفاتيح 354/2 )
[عشرۂ ذی الحجہ اور قربانی : ص 38 ]

.

حافظ ثناء اللہ مدنی

.
سوال :
کیا جاموس( بھینسا) بھی قربانی کے لیے جائز ہے؟
جواب:
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید نے قربانی کے لیے ﴿بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ﴾ کومتعین کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ} [الحج: 34]
’’تاکہ جو مویشی چار پائے اللہ نے ان کو دیے ہیں(اُن کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں۔‘‘

’’بَھِیْمَة الْاَنْعَامِ‘‘سے مراد اُونٹ،گائے،بکری، دنبہ، چھترہ وغیرہ ہیں ان میں بھینس شامل نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ان جانوروں کے علاوہ کی قربانی منقول نہیں۔ البتہ حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کرنا جائز ہے۔ ان لوگوں نے بھینس کو گائے پر قیاس کیا ہے۔ لیکن سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ بھینس اوصاف کے اعتبار سے گائے سے بالکل مختلف جنس ہے۔ اس بناء پر فقہائے کرام نے اس بات کی صراحت کی ہے۔ کہ اگر کسی نے قسم کھالی کہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا لیکن اس نے بھینس کا گوشت کھا لیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی۔ اور جن لغویوں نے اس کو گائے کی قسم قرار دیا ہے بظاہر تساہل معلوم ہوتا ہے۔(وَاللّٰہُ تَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)

اور کوئی کہے جب بھینس کی قربانی دینی درست نہیں، پھر تو اس کی زکوٰۃ بھی واجب نہیں ہونی چاہیے ؟ اس اعتراض کا جواب شیخی المکرم محدث روپڑی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔
یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرناپڑتا ہے۔
ام المومنین سودۃ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا۔ لڑکا پیدا ہوا۔جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص کو وصیت کرگیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا۔ اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ لہٰذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔
مقدمہ دربارِ نبویﷺمیں پیش ہوا۔ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
«الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ»
”یعنی اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔“ [صحيح البخاري 6818]
یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے۔ بچہ سودہ رضی اللہ عنہا کے بھائی کے حوالہ کردیا۔ جو حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا بھی بھائی بن گیا۔لیکن سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ اس سے پردہ کرے ،کیوں کہ اس کی شکل و صورت زانی سے ملتی جلتی تھی۔ جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل و صورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا۔ اور جس کے گھر میں پیدا ہوا، اُس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے ۔ اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہو گا۔ زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے۔ اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائزنہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے کہ اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے۔یہ بھی اسی زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہو سکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث،ج:2،ص:426۔427)
یہ وہ عظیم مسئلہ ہے جس کی بنا پر محقق شہیر مولانا عبدالقادر حصاری رحمہ اللہ نے شیخی المکرم کو مجتہد کے لقب سے نوازا تھا۔
[فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:414]
.

Leave a Reply