🌷 *قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *پچیسواں پارہ* ☆☆
1- سورہ شوریٰ کی ابتدا ذكر قرآن سے ہوتی ہے اور اس بات سے کہ قرآن کریم مکہ اور اس کے ارد گرد بسنے والے لوگوں کو آگاہ کرنے والی اور جمع ہونے والے دن (قیامت) سے ڈرانے والی کتاب ہے۔
2- اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اپنی رسالت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ تمام انبیاء کرام کی دعوت ایک ہے اگرچہ اس کے تفصیلی احکامات مختلف ہیں۔ اس لیے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہمارے نبی ﷺ کی شریعت میں وہ باتیں بھی ہیں جو گزشتہ انبیاء کی شریعت میں تھیں۔
3- اس سورت میں مشورے کے اصول اور ضابطہ کو استوار کرنےکے ساتھ یہ بیان کیا گیا کہ یہ (باہم مشورہ) اسلامى معاشرے کی جملہ خصوصیات میں سے ہے۔
4- عفو درگزر کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ عفو درگزر کرنا قابل تعریف صفت ہے بشرطیکہ اس سے اصلاح کی امید ہو ورنہ نہیں۔
5- اللہ کی وحدانیت اور اس کی قدرت کے بعض دلائل کی طرف اشارہ ہے۔اسی میں سے یہ نعمت کہ اللہ تعالی جسے چاہتا ہے اولاد سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے محروم کر دیتا ہے۔
6- سورہ شوری کے اختتام پر بیان کیا گیا ہے کہ قرآن روح ہے جس کے ذریعہ روحوں کو زندگی ملتی ہے۔ تو کیا آپ نے غور کیا کہ جس روح کے ذریعہ اللہ نے آپ کے دل کو زندگی بخشی ہے اس روح کا کتنا حصہ آپ کو حاصل ہے ۔
7- سورہ زخرف کے ابتدا میں قرآن کریم کے مقام و مرتبے کا بیان ہے۔ پھر مشرکین سے حجت بازی کا ذکر ہے۔ اس کے بعد بغیر دلیل کے باپ دادا کی اتباع کرنے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اندھی تقلید کےکیا منفی اثرات آپ پر مرتب ہوتے ہیں؟
8- معيشت اور روزی روٹی کے متعلق پریشان نہ ہوں اس لیے کہ اللہ تعالی نےہر ایک کی معیشت کو الگ الگ تقسیم کر دیا ہے اور بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿أَهُمْ يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَاوَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِّيَتَّخِذَ بَعْضُهُم بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ﴾ (الزخرف 32) ترجمہ: کیا آپ کے رب کی رحمت کو یہ تقسیم کرتے ہیں؟ ہم نے ہی ان کی زندگانی دنیا کی روزی ان میں تقسیم کی ہے اور ایک کو دوسرے سے بلند کیا ہے تاکہ ایک دوسرے کو ماتحت کر لے جسے یہ لوگ سمیٹتے پھرتے ہیں اس سے آپ کے رب کی رحمت بہت ہی بہتر ہے۔
9- برے دوست سے بچو قبل اس کے کہ تم اس سے دور ہونے کی تمنا کرو لیکن اس وقت پشیمانی کچھ فائدہ نہ دے گی۔
10- موسی علیہ السلام کے قصے میں فرعون نے اپنی بادشاہت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ وہ موسی سے افضل اور بہتر ہے۔ لہذا دنیا سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ، اس لیے کہ اللہ تعالی دنیا اپنے محبوب اور غیر محبوب دونوں قسم کے بندوں کو عطا کرتا ہے۔
11- قیامت کے دن ساری دوستیاں ناکام ثابت ہوں گی۔ صرف نیک لوگوں کی دوستی کام آئے گی۔ اس لیے نیک لوگوں کی صحبت اور دوستی اختیار کرو، دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی ملے گی۔
12- سورہ زخرف کی آخری آیات میں جہنمیوں اور جہنم کے داروغہ (مالک) کے درمیان ہونے والی گفتگو میں غور کریں اور جہنمیوں کی بے انتہا حسرت و افسوس کا اندازہ لگائیں۔
13- سوره دخان کی ابتدائی آیات میں قرآن کے مبارک رات میں نازل کئے جانے کا بیان ہے۔ قرآن ایک بابرکت کتاب ہے جو بابرکت مہینے میں اور بابرکت رات میں نازل ہوئی۔ لہذا آپ قرآن کی برکت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
14- مشرک کی زندگی لہو لعب اور شک و شبہ کے سوا کچھ نہیں۔ لہذا اس کی مشابہت اپنانے سے بچو۔
15- غورکیجئے حق سے روگردانی کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا۔
16- سورۃ دخان کی آخری آیات میں برے لوگوں کے انجام کا بیان ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿إِنَّ شَجَرَتَ ٱلزَّقُّومِ٤٣ طَعَامُ ٱلۡأَثِيمِ٤٤ كَٱلۡمُهۡلِ يَغۡلِي فِي ٱلۡبُطُونِ٤٥ كَغَلۡيِ ٱلۡحَمِيمِ٤٦ خُذُوهُ فَٱعۡتِلُوهُ إِلَىٰ سَوَآءِ ٱلۡجَحِيمِ٤٧ ثُمَّ صُبُّواْ فَوۡقَ رَأۡسِهِۦ مِنۡ عَذَابِ ٱلۡحَمِيمِ٤٨ ذُقۡ إِنَّكَ أَنتَ ٱلۡعَزِيزُ ٱلۡكَرِيمُ٤٩ إِنَّ هَٰذَا مَا كُنتُم بِهِۦ تَمۡتَرُونَ٥٠﴾ (الدخان 43-50) ترجمہ: بیشک زقوم (تھوہر) کا درخت۔ گناه گار کا کھانا ہےجو مثل تلچھٹ کے ہے اور پیٹ میں کھولتا رہتا ہے۔ مثل تیز گرم پانی کے۔اسے پکڑ لو پھر گھسیٹتے ہوئے بیچ جہنم تک پہنچاؤ۔پھر اس کے سر پر سخت گرم پانی کا عذاب بہاؤ۔ (اس سے کہا جائے گا) چکھتا جا تو تو بڑا ذی عزت اور بڑے اکرام والا تھا۔یہی وه چیز ہے جس میں تم شک کیا کرتے تھے۔
نیک لوگ کس بدلے کا انتظار کر رہے ہیں اس کا بیان ہے: ﴿إِنَّ ٱلۡمُتَّقِينَ فِي مَقَامٍ أَمِينٖ٥١ فِي جَنَّٰتٖ وَعُيُونٖ٥٢ يَلۡبَسُونَ مِن سُندُسٖ وَإِسۡتَبۡرَقٖ مُّتَقَٰبِلِينَ٥٣ كَذَٰلِكَ وَزَوَّجۡنَٰهُم بِحُورٍ عِينٖ٥٤ يَدۡعُونَ فِيهَا بِكُلِّ فَٰكِهَةٍ ءَامِنِينَ٥٥ لَا يَذُوقُونَ فِيهَا ٱلۡمَوۡتَ إِلَّا ٱلۡمَوۡتَةَ ٱلۡأُولَىٰۖ وَوَقَىٰهُمۡ عَذَابَ ٱلۡجَحِيمِ٥٦ فَضۡلٗا مِّن رَّبِّكَۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ٥٧ فَإِنَّمَا يَسَّرۡنَٰهُ بِلِسَانِكَ لَعَلَّهُمۡ يَتَذَكَّرُونَ٥٨ فَٱرۡتَقِبۡ إِنَّهُم مُّرۡتَقِبُونَ٥٩﴾ (الدخان:51-59) ترجمہ: بیشک (اللہ سے) ڈرنے والے امن چین کی جگہ میں ہوں گے۔ باغوں اور چشموں میں۔باریک اور دبیز ریشم کے لباس پہنے ہوئے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ یہ اسی طرح ہے اور ہم بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا نکاح کردیں گے۔ دل جمعی کے ساتھ وہاں ہر طرح کے میوؤں کی فرمائشیں کرتے ہوں گے۔وہاں وه موت چکھنے کے نہیں، ہاں پہلی موت (جو وه مر چکے)، انہیں اللہ تعالیٰ نے دوزخ کی سزا سے بچا دیا۔یہ صرف تیرے رب کا فضل ہے، یہی ہے بڑی کامیابی۔ ہم نے اس (قرآن) کو تیری زبان میں آسان کردیا تاکہ وه نصیحت حاصل کریں۔ اب تو منتظر ره، یہ بھی منتظر ہیں۔
17- سورہ جاثیہ کی ابتدائی آیات میں زمین و آسمان کی بادشاہت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ پھر مالک الملک کی عبادت سے روگردانی کرنے والوں کے عذاب کا بیان ہے۔ اور وحی کا مذاق اڑانے والوں کا تذکرہ ہے۔
18- خواہش نفس کی پیروی انسان کو اس انجام تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ خواہش نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے اور اسے اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
19- سورہ جاثیہ کے اختتام پر قیامت کی ہولناکی، باطل پرستوں کے خسارے کا موثر بیان ہے۔ نیز اہل ایمان کے ثواب اور کافروں کے عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

Pingback: فہرست : قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات – Kifayatullah Sanabili