☆☆ *ساتواں پارہ* ☆☆

You are currently viewing ☆☆ *ساتواں پارہ* ☆☆

☆☆ *ساتواں پارہ* ☆☆

*قرآنی پاروں کے بنیادی موضوعات*
تالیف: پروفیسر عمر بن عبد اللہ بن محمد المُقبِل، القصیم یونیورسٹی، سعودی عرب
ترجمہ: محمد شاهد یار محمد سنابلی
☆☆ *ساتواں پارہ* ☆☆
① اس پارے کی ابتدا اس بات سے ہورہی ہے کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ میں کون ہم مسلمانوں سے سب سے زیادہ قربت رکھنے والے اور کون سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے ہیں۔
② اس پارے میں چند فقہی احکام ومسائل کا تذکرہ ہے جیسے: قسم کا کفارہ، شراب اور جوئے کی حرمت، حالت احرام میں شکار کرنے کی حرمت اور اس کی سزا کا بیان، موت کے وقت وصیت، گواہوں کا بیان اور اگر گواہ مسلمان نہ ہوں تو اس کا حکم۔
③ عیسی علیہ السلام اور ان کے حواریوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ذکر ہے۔ نیز ان کے حواریوں کی ضد اور ڈھٹائی بھرے مطالبہ کا بیان کہ وہ اپنے رب کی طرف سے کوئی ایسی نشانی لے کر آئیں جو انھیں ایمان کی طرف راغب کر سکے۔ یہ واقعہ صحابہ کرام کی فضیلت کی ایک مثال اور دلیل ہے۔ اس لئے کہ ممانعت کو ترک کرنے میں تاخیر نہ کرنا اور حکم کی فوری تعمیل کرنا صحابہ کرام کا طرہ امتیاز تھا۔ جبکہ انبیاء کرام کے بعض پیروکاروں کا طرز عمل اس کے برعکس تھا جیسا کہ اس قصے اور گائے کے قصے سے معلوم ہوتا ہے۔
④ اس مذکورہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالم اور داعی کو اپنے متبعین کے سوال اور مطالبہ کے تئیں کس قدر صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز تمام تر جدوجہد کے باوجود اسے اپنے متبعین کی طرف سے عجیب و غریب سوالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
⑤ اللہ تعالی اور عیسی علیہ السلام کے درمیان ہونے والی ایک گفتگو کا ذکر ہے جس میں الوہیت کا دعوی کرنے سے عیسی علیہ السلام کی براءت کا اظہار ہے۔ پھر کیسے عیسائی لوگ ان کی الوہیت کا دعویٰ کرتے ہیں جبکہ انہوں نے خود اس سے براءت کا اعلان کر دیا ہے۔
⑥ سورہ انعام کی ابتدائی آیات اور آخری آیات دونوں میں توحید، نبوت اور بروز قیامت دوبارہ زندہ کیے جانے کے مسئلہ کو خوب واضح انداز میں بیان کیا ہے۔
﴿قُلۡ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحۡيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ١٦٢ لَا شَرِيكَ لَهُۥۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرۡتُ وَأَنَا۠ أَوَّلُ ٱلۡمُسۡلِمِينَ١٦٣ قُلۡ أَغَيۡرَ ٱللَّهِ أَبۡغِي رَبّٗا وَهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيۡءٖۚ وَلَا تَكۡسِبُ كُلُّ نَفۡسٍ إِلَّا عَلَيۡهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٞ وِزۡرَ أُخۡرَىٰۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُم مَّرۡجِعُكُمۡ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمۡ فِيهِ تَخۡتَلِفُونَ١٦٤﴾(الانعام 162-164)
ترجمہ: آپ فرما دیجئے کہ بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا یہ سب خالص اللہ ہی کا ہے جو سارے جہان کا مالک ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ہوں۔ فرما دیجئے کہ کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رب بنانے کے لئے تلاش کروں حالانکہ وہ مالک ہے ہرچیز کا اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے اور وہ اسی پر رہتا ہے اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا پھر تم کو اپنے رب کے پاس جانا ہوگا ، پھر تم کو جتلا ئے گا جس جس چیز میں تم اختلاف کرتے تھے۔
⑦ سورہ انعام کے آغاز اور سورہ مائدہ کے اختتام دونوں میں واضح ربط اور یکسانیت ہے۔ چنانچہ سورہ مائدہ کا اختتام ایک عقیدہ کی گفتگو پر ہوا ہے جس میں عبادت کا مستحق صرف اور صرف اللہ کی ذات کو قرار دیا گیا ہے۔
⑧ اللہ کی آیات سے اعراض کرنے والوں اور دین حق کو جھٹلانے والوں کے لئے جہاں اس میں نصیحت ہے وہیں انہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب سے دوچار کیے جانے کی وعید سنائی گئی ہے۔
⑨ حسی اور عقلی دلائل کے ذریعے عقیدہ توحید کو ثابت کرنے کے سلسلے میں ابراہیم علیہ السلام کا اپنی قوم سے ہونے والا مناظرہ ایک اہم مناظرے کی حیثیت رکھتا ہے۔
⑩ کائنات اور مخلوقات میں غور و فکر کر کے ایمان کو مضبوط کرنے سے دل میں اللہ کی عظمت و جلال کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
•┈┈┈••⊰✵✵⊱••┈┈┈•

This Post Has One Comment

Leave a Reply